سنن ابن ماجه
كتاب الوصايا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
باب: وصیت کی ترغیب۔
حدیث نمبر: 2700
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا دُرُسْتُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَحْرُومُ مَنْ حُرِمَ وَصِيَّتَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1685، ومصباح الزجاجة: 955) (ضعیف)» (یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،لضعف (يزيد بن أبان) الرقاشي والراوي عنه‘‘ درست بن زياد: ضعيف (د 3741) والرقاشي: ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 476
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2700 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2700
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت اکثر محققین کے نزدیک ضعیف ہے، تاہم حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص وصیت کیے بغیر فوت ہوگیا، وہ ان فوائد سے محروم رہ گیا جو اسے وصیت سے حاصل ہوسکتے تھے، مثلاً:
صدقہ کرنے کی وصیت کرتا تو اس کے بعد میں اس کا ثواب ملتا، قرض کی ادائیگی کی وصیت کرتا تو وارث اس کا قرض ادا کردیتے اور وہ بری الذمہ ہوجاتا۔
فوت ہوجانے کے بعد اس کوتاہی کی تلافی ناممکن ہے، اس لیے ایسا شخص بہت سی خیر سے محروم رہ گیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2700