(مرفوع) حدثنا ابو مروان العثماني محمد بن عثمان حدثنا إبراهيم بن سعد عن الزهري عن عبد الرحمن بن هرمز الاعرج انه سمع ابا هريرة يقول والله لولا آيتان في كتاب الله تعالى ما حدثت عنه- يعني عن النبي صلى الله عليه وسلم- شيئا ابدا لولا قول الله: {إن الذين يكتمون ما انزل الله من الكتاب} إلى آخر الآيتين. (مرفوع) حدثنا أبو مروان العثماني محمد بن عثمان حدثنا إبراهيم بن سعد عن الزهري عن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج أنه سمع أبا هريرة يقول والله لولا آيتان في كتاب الله تعالى ما حدثت عنه- يعني عن النبي صلى الله عليه وسلم- شيئا أبدا لولا قول الله: {إن الذين يكتمون ما أنزل الله من الكتاب} إلى آخر الآيتين.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم! اگر قرآن کریم کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی کوئی نہ حدیث بیان کرتا، اور دو آیتیں یہ ہیں: «إن الذين يكتمون ما أنزل الله من الكتاب» إلى آخر الآيتين ”بیشک جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلہ میں معمولی قیمت لیتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ نہ تو ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کو معاف کرے گا، اور ان کو سخت عذاب پہنچے گا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے، پس وہ کیا ہی صبر کرنے والے ہیں جہنم پر“(سورة البقرة: 174-175)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: آیت کا سیاق یہ ہے: «إن الذين يكتمون ما أنزل الله من الكتاب ويشترون به ثمنا قليلا أولئك ما يأكلون في بطونهم إلا النار ولا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم (۱۷۴) أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة فمآ أصبرهم على النار (۱۷۵)»(سورة البقرة: 174-175)، یہ آیات اگرچہ یہود کے متعلق ہیں، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی توراۃ میں موجود صفات چھپا لیں، مگر قرآن کے عمومی سیاق کا حکم شریعت کے احکام کو چھپانے والوں کو شامل ہے، علماء کے یہاں مشہور قاعدہ ہے: «العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب» یعنی: ”اصل اعتبار الفاظ کے عموم سے استدلال کا ہے، سبب نزول سے وہ خاص نہیں ہے“۔
It was narrated that 'Abdur-Rahman bin Hurmuz Al-A'raj heard Abu Hurairah say:
"By Allah, were it not for two Verses in the Book of Allah, I would never have narrated anything from him, meaning from the Prophet, were it not for the Words of Allah: Verily, those who conceal what Allah has sent down of the Book, and purchase a small gain therewith (of worldly things), they eat into their bellies nothing but fire. Allah will not speak to them on the Day of Resurrection, nor purify them, and theirs will be a painful torment. Those are they who have purchased error at the price of guidance, and torment at the price of forgiveness. So how bold they are (for evil deeds which will push them) to the Fire.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث262
اردو حاشہ: (1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری میں اسلام لائے۔ اس طرح انہیں تقریبا چار سال تک خدمت نبوی میں رہ کر علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ آپ کی وفات 58 یا 59 ہجری میں ہوئی۔ اس طرح آپ کو اس دور میں علم کی نشرواشاعت کا موقع ملا جب بہت سے کبار صحابہ وفات پا چکے تھے یا انہیں مختلف انتظامی عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے تعلیم و تبلیغ کا اتنا موقع نہیں ملتا تھا۔ ان حالات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی کی تعلیم و تدریس کو اپنا مشن بنا لیا۔ اس پر بعض لوگوں نے ایسی باتیں کیں کہ آپ اتنی زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے صحابہ جن کو زیادہ عرصہ صحبت نبوی کا شرف حاصل ہے، وہ اتنی حدیثیں بیان نہیں کرتے۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں علم چھپانے کے جرم کا مرتکب قرار نہ دیا جاؤں۔
(2) کتب احادیث میں جتنی حدیثیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اتنی کسی اور صحابی سے مروی نہیں۔ اس کے مندرجہ بالا اسباب کے علاوہ کچھ اور اسباب بھی ہیں مثلا (ا) مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تجارت وغیرہ کو وقت دیتے تھے تاکہ حلال روزی کما کر اپنے اہل و عیال کا حق ادا کریں۔ اسی طرح اکثر انصاری صحابہ زراعت پیشہ تھے اور انہیں بھی اس میں کافی وقت صرف کرنا پڑتا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اصحابِ صفہ میں سے تھے جو فکر معاش کی طرف توجہ نہ دیتے ہوئے تحصیل علم میں مشغول رہتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر بھوک بھی برداشت کرتے تھے۔
(ب) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل نہیں کرتے تھے بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ہوتے یا کسی اور مصروفیت میں ہوتے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے احادیث اور مسائل معلوم کرتے رہتے تھے۔
(ج) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی شرف حاصل ہے کہ آپ کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ علم کی خصوصی دعا کی تھی۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، العلم، باب حفظ العلم، حديث: 118، وصحيح مسلم، فضائل الصحابة، باب من فضائل ابي هريرة الدوسي رضي الله عنه، حديث: 2492)
(3) روایت میں ذکر کردہ آیات مباررکہ سے کتمان علم کی شناعت اور اس کی شدید سزا معلوم ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت علم چھپانا کبیرہ گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 262