(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، قال: غزوت مع زيد بن صوحان و سلمان بن ربيعة فوجدت سوطا، فقالا لي: اطرحه، فقلت: لا، ولكن إن وجدت صاحبه وإلا استمتعت به فحججت فمررت على المدينة، فسالت ابي بن كعب، فقال: وجدت صرة فيها مائة دينار، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقلت: لم اجد من يعرفها، فقال:" احفظ عددها ووكاءها ووعاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها"، وقال: ولا ادري اثلاثا قال عرفها او مرة واحدة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِيَ: اطْرَحْهُ، فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ إِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ فَحَجَجْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا"، وَقَالَ: وَلَا أَدْرِي أَثَلَاثًا قَالَ عَرِّفْهَا أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا: اسے پھینک دو، میں نے کہا: نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اور پہچان کراؤ“، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال پھر پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا“۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے «عرفها» تین بار کہا تھا یا ایک بار۔
Suwayd ibn Ghaflah said: I fought along with Zayd ibn Suhan and Sulayman ibn Rabiah. I found a whip. They said to me: Throw it away. I said: No; if I find its owner (I shall give it to him); if not, I shall use it. Then I performed hajj; and when I reached Madina, I asked Ubayy ibn Kab. He said: I found a purse which contained one hundred dinars; so I came to the Prophet ﷺ. He said to me: Make the matter known for a year. I made it known for a year and then came to him. He then said to me: Make the matter known for a year. So I made it known for a year. I then (again) came to him. He said to me: Make the matter known for a year. Then I came to him and said: I did not find anyone who realises it. He said: Remember, its number, its container and its tie. If its owner comes, (give it to him), otherwise use it yourself. He (the narrator Shubah) said: I do not know whether he said the word "make the matter known" three times or once.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1697
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة بمعناه، قال: عرفها حولا، وقال ثلاث مرار، قال: فلا ادري قال له ذلك في سنة او في ثلاث سنين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، وَقَالَ ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي قَالَ لَهُ ذَلِكَ فِي سَنَةٍ أَوْ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ.
اس سند سے بھی شعبہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں: «عرفها حولا» تین بار کہا، البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ نے اسے ایک سال میں کرنے کے لیے کہا یا تین سال میں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:28) (صحیح)»
The aforesaid tradition has also been transmitted by Shubah through a different chain of narrators to the same effect. The version goes: He said: Make it known for a year. He said this three times. He said: I do not know whether he said “for a year” or “for three years”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1698
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، حدثنا سلمة بن كهيل، بإسناده ومعناه، قال في التعريف:" قال: عامين او ثلاثة، وقال: اعرف عددها ووعاءها ووكاءها"، زاد:" فإن جاء صاحبها فعرف عددها ووكاءها فادفعها إليه". قال ابو داود: ليس يقول هذه الكلمة إلا حماد في هذا الحديث، يعني فعرف عددها. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِي التَّعْرِيفِ:" قَالَ: عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، وَقَالَ: اعْرِفْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا"، زَادَ:" فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ". قَالَ أَبُو دَاوُدَ: لَيْسَ يَقُولُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ إِلَّا حَمَّادٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، يَعْنِي فَعَرَفَ عَدَدَهَا.
حماد کہتے ہیں سلمہ بن کہیل نے ہم سے اسی سند سے اور اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لقطہٰ کی) پہچان کرانے کے سلسلے میں فرمایا: ”دو یا تین سال تک (اس کی پہچان کراؤ)“، اور فرمایا: ”اس کی تعداد جان لو اور اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کی پہچان کر لو“، اس میں اتنا مزید ہے: ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تعداد اور سر بندھن بتا دے تو اسے اس کے حوالے کر دو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «فعرف عددها» کا کلمہ اس حدیث میں سوائے حماد کے کسی اور نے نہیں ذکر کیا ہے۔
The above mentioned tradition has also been transmitted by Salamah. Bin Kuhail through a different chain to the same effect. The version has ; about making the matter known he said ; “ two years or three. ” He said: Remember its number, its container and its string. The version adds: If its owner comes, and tells its number and its string, then give it to him. Abu Dawud said: None of the narrators said this word in this tradition except Hammad ; That is, “ If he tells its number. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1699
قال الشيخ الألباني: صحيح والمعتمد التعريف سنة واحدة كما في حديث زيد بن خالد
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني، ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة، قال:" عرفها سنة، ثم اعرف وكاءها وعفاصها، ثم استنفق بها فإن جاء ربها فادها إليه"، فقال: يا رسول الله، فضالة الغنم، فقال:" خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب"، قال: يا رسول الله، فضالة الإبل، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه او احمر وجهه، وقال:" ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها حتى ياتيها ربها". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ، فَقَالَ:" خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا رَبُّهَا".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھر اسے خرچ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو“، اس نے کہا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لو، اس لیے کہ وہ یا تو تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے“، اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کو ہم کیا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ”تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اس کا جوتا ۱؎ اور اس کا مشکیزہ اس کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آ جائے“۔
وضاحت: ۱؎: جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے، اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور بار بار پانی پینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا بھی خوف نہیں کہ وہ خود اپنا دفاع کر لیتا ہے، اس لئے اسے پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
Zaid bin Khalid al-Juhani said: A man asked the Messenger of Allah ﷺ about a find. He said: Make the matter known for a year, then note its string and its container and then use it for your purpose. Then if its owner comes, give it to him. He asked: Messenger of Allah, what about a stray sheep? He replied: Take it; that is for you, or for your brother, or for the wolf. He again asked: Messenger of Allah, What about stray camels? The Messenger of Allah ﷺ became angry so much so that his cheeks became red or ( the narrator is doubtful) his face became red. He replied: What have you to do with them? They have with them their feet and their stomachs (for drink) till their master comes to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1700
(مرفوع) حدثنا ابن السرح،حدثنا ابن وهب، اخبرني مالك، بإسناده ومعناه، زاد:" سقاؤها ترد الماء وتاكل الشجر"، ولم يقل: خذها في ضالة الشاء، وقال في اللقطة:" عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها"، ولم يذكر: استنفق. قال ابو داود: رواه الثوري و سليمان بن بلال و حماد بن سلمة، عن ربيعة مثله، لم يقولوا: خذها. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ:" سِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ"، وَلَمْ يَقُلْ: خُذْهَا فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ، وَقَالَ فِي اللُّقَطَةِ:" عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنُكَ بِهَا"، وَلَمْ يَذْكُرْ: اسْتَنْفِقْ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ مِثْلَهُ، لَمْ يَقُولُوا: خُذْهَا.
اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: ”وہ اپنی سیرابی کے لیے پانی پر آ جاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے“، اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها»(اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہٰ کے سلسلے میں فرمایا: ”ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کر لو“، اس میں «استنفق» کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:3763) (صحیح)»
The above mentioned tradition has also been transmitted by Malik through a different chain of narrators to the same effect. This version adds: They have their stomachs: They can go down to water and eat trees. He did not say about the stray sheep: take it. About a find he said: Make it known for a year; if it’s owner comes, (give it to him), otherwise use it yourself. This version has not the word: “ spend it”. Abu Dawud said: This tradition has been narrated by al-Thawri, Sulaiman bin Bilal, and Hammad bin Salamah on the authority of Rabi ‘ ah in a similar manner. They did not mention the word “take it”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1701
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آ جائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللقطة 1(1722)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1373)، سنن النسائی/الکبری (5811)، سنن ابن ماجہ/ اللقطة 1 (507)، (تحفة الأشراف:3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)»
Narrated Zayd ibn Khalid al-Juhani: The Messenger of Allah ﷺ was asked about a find. He said: Make it known for a year. If its seeker comes, deliver it to him, otherwise note its container and its string. Then use it; if its seeker comes, deliver it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1702
قال الشيخ الألباني: صحيح م وفي إسناده زيادة عن أبي النضر عن بسر وهو الصواب
(مرفوع) حدثنا احمد بن حفص، حدثني ابي، حدثني إبراهيم بن طهمان، عن عباد بن إسحاق، عن عبد الله بن يزيد، عن ابيه يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني، انه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر نحو حديث ربيعة، قال: وسئل عن اللقطة، فقال:"تعرفها حولا فإن جاء صاحبها دفعتها إليه وإلا عرفت وكاءها وعفاصها ثم افضها في مالك فإن جاء صاحبها فادفعها إليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ رَبِيعَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:"تُعَرِّفُهَا حَوْلًا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا دَفَعْتَهَا إِلَيْهِ وَإِلَّا عَرَفْتَ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ أَفِضْهَا فِي مَالِكَ فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (لقطے کے متعلق) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا: لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو، اور اگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو، پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کو دے دو“۔
The aforesaid tradition has also been transmitted by Zaid bin Khalid al-Juhani through a different chain of narrators. This version has: The Messenger of Allah ﷺ was asked about a find. He replied: Make the matter known for a year; if its owner comes, give it to him, otherwise note its string and its container and have it along with your property. If its owner comes, deliver it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1703
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، عن حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد، وربيعة، بإسناد قتيبة ومعناه، وزاد فيه:" فإن جاء باغيها فعرف عفاصها وعددها فادفعها إليه"،وقال حماد ايضا: عن عبيد الله بن عمر، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله. قال ابو داود: وهذه الزيادة التي زاد حماد بن سلمة في حديث سلمة بن كهيل و يحيى بن سعيد و عبيد الله بن عمر و ربيعة:" إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووكاءها فادفعها إليه" ليست بمحفوظة، فعرف عفاصها ووكاءها، وحديث عقبة بن سويد، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ايضا، قال:" عرفها سنة"، وحديث عمر بن الخطاب ايضا، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" عرفها سنة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَرَبِيعَةَ، بِإِسْنَادِ قُتَيْبَةَ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ:" فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"،وقَالَ حَمَّادٌ أَيْضًا: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ الَّتِي زَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِي حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ وَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَ رَبِيعَةَ:" إِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ" لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْضًا، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً"، وَحَدِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً".
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: ”اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کو دے دو“۔ اور حماد نے بھی عبیداللہ بن عمر سے، عبیداللہ نے عمرو بن شعیب نے «عن ابیہ عن جدہ» عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ زیادتی جو حماد بن سلمہ نے سلمہ بن کہیل، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ اور ربیعہ کی حدیث (یعنی حدیث نمبر: ۱۷۰۲ -۱۷۰۳) میں کی ہے: «إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووكاءها فادفعها إليه» یعنی: ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے تو اس کو دے دو“، اس میں: «فعرف عفاصها ووكاءها»”تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے“ کا جملہ محفوظ نہیں ہے۔ اور عقبہ بن سوید کی حدیث میں بھی جسے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے یعنی «عرفها سنة»(ایک سال تک اس کی تشہیر کرو) موجود ہے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: «عرفها سنة» تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کسی روایت میں تین سال پہچان (شناخت) کراتے رہنے کا تذکرہ ہے، اور کسی میں ایک سال، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب و ورع، ان دونوں روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ قرار دیا جائے اور دوسرے کو منسوخ (ملاحظہ ہو: فتح الباری)۔
The above mentioned tradition has also been transmitted by Yahya bin Saeed and Rabiah through the chain of narrators mentioned by Qutaibah to the same effect. This version adds; if its seeker comes, and recognizes its container and its number, then give it to him. Hammad also narrated it from `Ubaid Allah bin Umar from Amr bin Shuaib, from his father, from his grandfather, from the Prophet ﷺ something similar. Abu Dawud said: This addition made by Hammad bin Salamah bin Kuhail, Yahya bin Saeed, `Ubaid Allah bin Umar and Rabiah; “if its owner comes and recognizes its container, and its string, ” is not guarded. The version narrated by Uqbah bin Suwaid on the authority of his father from the Prophet ﷺ has also the words: “make it known for a year”. The version of Umar bin al-Khattab has also been transmitted from the Prophet ﷺ. This version has: “Make it known for a year”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1704
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ الکبری (5808، 5809)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2505)، (تحفة الأشراف:11013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں آگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہو جائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مر جائے اوراس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں۔
Narrated Iyad ibn Himar: The Prophet ﷺ said: He who finds something should call one or two trusty persons as witnesses and not conceal it or cover it up; then if he finds its owner he should return it to him, otherwise it is Allah's property which He gives to whom He will.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1705
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده عبد الله بن عمرو بن العاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه سئل عن الثمر المعلق؟ فقال:" من اصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه، ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة، ومن سرق منه شيئا بعد ان يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع"، وذكر في ضالة الإبل والغنم كما ذكره غيره، قال: وسئل عن اللقطة، فقال:" ما كان منها في طريق الميتاء او القرية الجامعة فعرفها سنة، فإن جاء طالبها فادفعها إليه، وإن لم يات فهي لك، وما كان في الخراب يعني ففيها وفي الركاز الخمس". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" مَا كَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا“۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: ”آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا“۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ was asked about the hanging fruit. He replied: If a needy person takes some and does not take a supply away in his garment, he is not to be blamed, but he who carries any of it away is to be find twice the value and punished, and he who steals any of it after it has been put in the place where dates are dried is to have his hand cut off if its value reaches the price of a shield. Regarding stray camels and sheep he mentioned the same as others have done. He said: He was asked about finds and replied: If it is in a frequented road and a large town, make the matter known for a year, and if its owner comes, give it to him, but if he does not, it belongs to you. If it is in a place which has been a waste from ancient time, or if it is a hidden treasure (belonging to the Islamic period), it is subject to the payment of the fifth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1706
The above mentioned tradition has also been transmitted by Amr bin Shuaib through a different chain of narrators. This version adds: regarding the stray sheep he said: “Take it”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1707
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن عبيد الله بن الاخنس، عن عمرو بن شعيب، بهذا بإسناده، وقال في ضالة الغنم:" لك او لاخيك او للذئب، خذها قط"، وكذا قال فيه ايوب، و يعقوب بن عطاء، عن عمرو بن شعيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" فخذها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، بِهَذَا بِإِسْنَادِهِ، وقَالَ فِي ضَالَّةِ الْغَنَمِ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، خُذْهَا قَطُّ"، وَكَذَا قَالَ فِيهِ أَيُّوبُ، وَ يَعْقُوبُ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَخُذْهَا".
اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”گمشدہ بکری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بکری تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی، تو اسے پکڑے رکھو“۔ اسی طرح ایوب اور یعقوب بن عطا نے عمرو بن شعیب سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے پکڑے رکھو“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ قطع السارق 8 (4960)، (تحفة الأشراف:8755)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186) (حسن)»
The aforesaid tradition has also been transmitted by Amr bin Shuaib through a different chain of narrators. This version has: He said about the stray sheep: You, your brother or the wolf may have them. Do take it. A similar version has been transmitted by Ayyub and Ya’qub bin `Ata from Amr bin Shu’aid from the Propher ﷺ. He said: then take it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1708
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”گمشدہ بکری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پکڑے رکھو، یہاں تک کہ اس کا ڈھونڈھنے والا اس تک آ جائے“۔
The above mentioned tradition has also been narrated by Amr bin Shuaib from his father, from his grandfather, from the Prophet ﷺ to the same effect. This version has: regarding the stray sheep he said: Take it (and keep it with you) till its seeker comes to it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1709
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن بكير بن الاشج، عن عبيد الله بن مقسم حدثه، عن رجل، عن ابي سعيد الخدري، ان علي بن ابي طالب وجد دينارا فاتى به فاطمة، فسالت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" هو رزق الله عز وجل" فاكل منه رسول الله صلى الله عليه وسلم واكل علي و فاطمة، فلما كان بعد ذلك اتته امراة تنشد الدينار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا علي اد الدينار". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ حَدَّثَهُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَجَدَ دِينَارًا فَأَتَى بِهِ فَاطِمَةَ، فَسَأَلَتْ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُوَ رِزْقُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" فَأَكَلَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَنْشُدُ الدِّينَارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ أَدِّ الدِّينَارَ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک دینار ملا تو وہ اسے لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ عزوجل کا دیا ہوا رزق ہے“، چنانچہ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا اور علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما نے کھایا، اس کے بعد ان کے پاس ایک عورت دینار ڈھونڈھتی ہوئی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! دینار ادا کر دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:4443) (حسن)»
Narrated Abu Saeed al-Khudri: Ali ibn Abu Talib found a dinar and he took it to Fatimah. She asked the Messenger of Allah ﷺ about it. He said: This is Allah's provision. Then the Messenger of Allah ﷺ ate out of the food (bought with it), and Ali and Fatimah also ate out of that food. But afterwards a woman came crying out about the dinar. The Prophet ﷺ said: Pay the dinar, Ali.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1710
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک دینار پڑا ملا، جس سے انہوں نے آٹا خریدا، آٹے والے نے انہیں پہچان لیا، اور دینار واپس کر دیا تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے واپس لے لیا اور اسے بھنا کر اس میں سے دو قیراط ۱؎ کا گوشت خریدا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:10028) (صحیح)»
Narrated Ali ibn Abu Talib: Bilal ibn Yahya al-Absi said: Ali found a dinar and purchased some flour with it. The seller of the flour recognised him and returned the dinar to him. Ali took it, deducted two qirat (carat) from it, and purchased meat with it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1711
(مرفوع) حدثنا جعفر بن مسافر التنيسي، حدثنا ابن ابي فديك، حدثنا موسى بن يعقوب الزمعي، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد اخبره، ان علي بن ابي طالب دخل على فاطمة و حسن و حسين يبكيان، فقال: ما يبكيهما؟ قالت: الجوع، فخرج علي فوجد دينارا بالسوق فجاء إلى فاطمة فاخبرها، فقالت: اذهب إلى فلان اليهودي فخذ لنا دقيقا فجاء اليهودي فاشترى به، فقال اليهودي: انت ختن هذا الذي يزعم انه رسول الله، قال: نعم، قال: فخذ دينارك ولك الدقيق، فخرج علي حتى جاء فاطمة فاخبرها، فقالت: اذهب إلى فلان الجزار فخذ لنا بدرهم لحما فذهب فرهن الدينار بدرهم لحم فجاء به فعجنت ونصبت وخبزت وارسلت إلى ابيها فجاءهم، فقالت: يا رسول الله، اذكر لك فإن رايته لنا حلالا اكلناه واكلت معنا من شانه كذا وكذا، فقال:" كلوا باسم الله"، فاكلوا، فبينما هم مكانهم إذا غلام ينشد الله والإسلام الدينار، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعي له فساله، فقال: سقط مني في السوق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا علي، اذهب إلى الجزار، فقل له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول لك: ارسل إلي بالدينار ودرهمك علي"، فارسل به فدفعه رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه. (مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمَعِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ وَ حَسَنٌ وَ حُسَيْنٌ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيهِمَا؟ قَالَتْ: الْجُوعُ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ فَوَجَدَ دِينَارًا بِالسُّوقِ فَجَاءَ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: اذْهَبْ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ فَخُذْ لَنَا دَقِيقًا فَجَاءَ الْيَهُودِيَّ فَاشْتَرَى بِهِ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَنْتَ خَتَنُ هَذَا الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَخُذْ دِينَارَكَ وَلَكَ الدَّقِيقُ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ حَتَّى جَاءَ فَاطِمَةَ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: اذْهَبْ إِلَى فُلَانٍ الْجَزَّارِ فَخُذْ لَنَا بِدِرْهَمٍ لَحْمًا فَذَهَبَ فَرَهَنَ الدِّينَارَ بِدِرْهَمِ لَحْمٍ فَجَاءَ بِهِ فَعَجَنَتْ وَنَصَبَتْ وَخَبَزَتْ وَأَرْسَلَتْ إِلَى أَبِيهَا فَجَاءَهُمْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَذْكُرُ لَكَ فَإِنْ رَأَيْتَهُ لَنَا حَلَالًا أَكَلْنَاهُ وَأَكَلْتَ مَعَنَا مِنْ شَأْنِهِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:" كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ"، فَأَكَلُوا، فَبَيْنَمَا هُمْ مَكَانَهُمْ إِذَا غُلَامٌ يَنْشُدُ اللَّهَ وَالْإِسْلَامَ الدِّينَارَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُعِيَ لَهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: سَقَطَ مِنِّي فِي السُّوقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ، اذْهَبْ إِلَى الْجَزَّارِ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَكَ: أَرْسِلْ إِلَيَّ بِالدِّينَارِ وَدِرْهَمُكَ عَلَيَّ"، فَأَرْسَلَ بِهِ فَدَفَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ.
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے بتایا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رو رہے تھے، تو انہوں نے پوچھا: یہ دونوں کیوں رو رہے ہیں؟ فاطمہ نے کہا: بھوک (سے رو رہے ہیں)، علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو بازار میں ایک دینار پڑا پایا، وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: فلاں یہودی کے پاس جائیے اور ہمارے لیے آٹا لے لیجئے، چنانچہ وہ یہودی کے پاس گئے اور اس سے آٹا خریدا، تو یہودی نے پوچھا: تم اس کے داماد ہو جو کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ وہ بولے: ہاں، اس نے کہا: اپنا دینار رکھ لو اور آٹا لے جاؤ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ آٹا لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو وہ بولیں: فلاں قصاب کے پاس جائیے اور ایک درہم کا گوشت لے آئیے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ گئے اور اس دینار کو ایک درہم کے بدلے گروی رکھ دیا اور ایک درہم کا گوشت لے آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی اور روٹی پکائی، اور اپنے والد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلا بھیجا، آپ تشریف لائے تو وہ بولیں: اللہ کے رسول! میں آپ سے واقعہ بیان کرتی ہوں اگر آپ اسے ہمارے لیے حلال سمجھیں تو ہم بھی کھائیں اور ہمارے ساتھ آپ بھی کھائیں، اس کا واقعہ ایسا اور ایسا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا نام لے کر کھاؤ“، ابھی وہ لوگ اپنی جگہ ہی پر تھے کہ اسی دوران ایک لڑکا اللہ اور اسلام کی قسم دے کر اپنے کھوئے ہوئے دینار کے متعلق پوچھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: بازار میں مجھ سے (میرا دینار) گر گیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! قصاب کے پاس جاؤ اور اس سے کہو: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہہ رہے ہیں: دینار مجھے بھیج دو، تمہارا درہم میرے ذمے ہے“، چنانچہ اس نے وہ دینار بھیج دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس (لڑکے) کو دے دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:4770) (حسن)»
Sahl bin Saad said: Ali bin Abi Talib entered upon Fatimah while Hasan and Husain were crying. He asked: Why are they crying? She replied: Due to hunger. Ali went out and found a dinar in the market. He then came to Fatima and told her about it. She said: Go to such and such a Jew and get some flour for us. He came to the Jew and purchased flour with it. He said: Are you the son-in-law of him who believes that he is the Messenger of Allah. He said: Yes. The Jew said: Have your dinar with you and you will get the flour. Ali then went out and came to Fatima. He told her about the matter. She then said: Go to such and such a butcher and get some meat for us for a dirham. Ali went out and pawned the dinar for a dirham with him and got the meat, and brought it (to her). She then kneaded the flour, put the utensil on fire and baked the bread. She sent for her father: (i. e. the Prophet ﷺ. He came to them. She said to him: Messenger of Allah, I tell you all the matter. If you think it is lawful for us, we shall eat it and you will eat with us. She said: The matter is such and such. He said: eat in the name of Allah. So they ate it. While they were (eating) at their place, a boy cried adguring in the name of Allah and Islam: He was searching the dinar. The Messenger of Allah ﷺ commanded and he was called in. He asked him. The boy replied, I lost it somewhere in the market. The Prophet ﷺ said: Ali, go to the butcher and tell him that the Messenger of Allah ﷺ has asked you: send the dinar to me and one dirham of yours will be due on me. The butcher returned it and the Messenger of Allah ﷺ handed it to him (the boy).
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1712
(مرفوع) حدثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي، حدثنا محمد بن شعيب، عن المغيرة بن زياد، عن ابي الزبير المكي، انه حدثه عن جابر بن عبد الله، قال:" رخص لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في العصا والسوط والحبل واشباهه يلتقطه الرجل ينتفع به". قال ابو داود: رواه النعمان بن عبد السلام، عن المغيرة ابي سلمة، بإسناده، ورواه شبابة، عن مغيرة بن مسلم، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: كانوا لم يذكروا النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَصَا وَالسَّوْطِ وَالْحَبْلِ وَأَشْبَاهِهِ يَلْتَقِطُهُ الرَّجُلُ يَنْتَفِعُ بِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ النُّعْمَانُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ أَبِي سَلَمَةَ، بِإِسْنَادِهِ، وَرَوَاهُ شَبَابَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانُوا لَمْ يَذْكُرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکڑی، کوڑے، رسی اور ان جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی کہ اگر آدمی انہیں پڑا پائے تو اسے کام میں لائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ ابوسلمہ سے اسی طریق سے روایت کیا ہے اور اسے شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے انہوں نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے روایت کیا ہے، راوی کہتے ہیں: لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی اسے جابر رضی اللہ عنہ پر موقوف کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:2966) (ضعیف)» (ابوالزبیر مدلس راوی ہیں اور بذریعہ «عن» روایت کئے ہیں)
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ gave us licence to use (for our purpose) a stick, a rope, a whip and things of that type which a man picked up; he may benefit from them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1713
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گمشدہ اونٹ اگر چھپا دیا جائے تو (چھپانے والے پر) اس کا جرمانہ ہو گا، اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:14251) (صحیح)»
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔ احمد کہتے ہیں: ابن وہب نے کہا: یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے، ابن موہب نے «أخبرني عمرو» کے بجائے «عن عمرو» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «م /اللقطة 1 (1724)، سنن النسائی/ الکبری/ اللقطة (5805)، (تحفة الأشراف:9705)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/499) (صحیح)»
Abdur-Rahman bin Uthman al-Taime said: The Messenger of Allah ﷺ prohibited taking the find of pilgrims. Ibn Wahb said: One should leave the find of a pilgrim till its owner finds it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1715
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد، عن ابي حيان التيمي، عن المنذر بن جرير، قال: كنت مع جرير بالبوازيج فجاء الراعي بالبقر وفيها بقرة ليست منها، فقال له جرير: ما هذه؟ قال: لحقت بالبقر لا ندري لمن هي، فقال جرير: اخرجوها، فقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا ياوي الضالة إلا ضال". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ جَرِيرٍ بِالْبَوَازِيجِ فَجَاءَ الرَّاعِي بِالْبَقَرِ وَفِيهَا بَقَرَةٌ لَيْسَتْ مِنْهَا، فَقَالَ لَهُ جَرِيرٌ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لَا نَدْرِي لِمَنْ هِيَ، فَقَالَ جَرِيرٌ: أَخْرِجُوهَا، فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَأْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ".
منذر بن جریر کہتے ہیں میں جریر کے ساتھ بوازیج ۱؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا: یہ کیسی گائے ہے؟ اس نے کہا: یہ گایوں میں آ کر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا: اسے نکالو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”گمشدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الکبری (5799)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 1 (2503)، (تحفة الأشراف:3233)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/360، 362) (صحیح)» (مرفوع حصہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ”بوازيج“: (عراق میں) نہر دجلہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ کسی گم شدہ جانور کو اپنا بنا لینے کے لئے اس کو پکڑ لے تو وہ گمراہ ہے، رہا وہ شخص جو اسے اس لئے پکڑے تا کہ اس کی پہچان کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: «من آوى ضالة فهو ضال ما لم يعرفها» اور نسائی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: «من أخذ لقطة فهو ضال ما لم يعرفها» جو آدمی گم شدہ چیز اپنے پاس رکھے وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے۔
Narrated Al-Mundhir ibn Jarir: I accompanied Jarir at Bawazij. The shepherd brought the cows. Among them there was a cow that was not one of them. Jarir asked him: What is this? He replied: This was mixed with the cows and we do not know to whom it belongs. Jarir said: Take it out. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: No one mixes a stray animal (with his animals) but a man who strays from right path.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1716