كتاب التطوع کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام و مسائل 4. باب الاِضْطِجَاعِ بَعْدَهَا باب: فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹ جائے“، اس پر ان سے مروان بن حکم نے کہا: کیا کسی کے لیے مسجد تک چل کر جانا کافی نہیں کہ وہ دائیں کروٹ لیٹے؟ عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں، تو پھر یہ خبر ابن عمر رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انہوں نے کہا: ابوہریرہ نے (کثرت سے روایت کر کے) خود پر زیادتی کی ہے (اگر ان سے اس میں سہو یا غلطی ہو تو اس کا بار ان پر ہو گا)، وہ کہتے ہیں: ابن عمر سے پوچھا گیا: جو ابوہریرہ کہتے ہیں، اس میں سے کسی بات سے آپ کو انکار ہے؟ تو ابن عمر نے جواب دیا: نہیں، البتہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (روایت کثرت سے بیان کرنے میں) دلیر ہیں اور ہم کم ہمت ہیں، جب یہ بات ابوہریرہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: اگر مجھے یاد ہے اور وہ لوگ بھول گئے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 195 (420)، (تحفة الأشراف: 12435)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/415) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ترمذی، ابن حبان (۲۴۵۹) اور عبدالحق اشبیلی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے، بعض روایات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ثابت ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق یوں ممکن ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل دونوں نقل کیا ہے، جبکہ ابو صالح سمان راوی نے آپ سے قول نقل کیا، اور اعمش نے ابو صالح سے امر (قول) یاد رکھا، اور ابن اسحاق نے فعل، اور ہر راوی نے جو بات یاد تھی روایت کی، اس طرح سے سبھوں نے صحیح نقل کیا ہے، اس طرح سے ابوہریرہ سے امر والی روایت کے محفوظ رکھنے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے فعل نبوی کے محفوظ ہونے کی بات میں تطبیق ہو جائے گی، ابوہریرہ کے بیان میں حدیث قولی کا مرفوع ہونا ثابت ہے، بعض اہل علم نے فعل رسول کو راجح قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو: اعلام اہل العصر بأحکام رکعتی الفجر، للمحدث شمس الحق العظیم آبادی، وشیخ الاسلام ابن تیمیۃ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، للفریوائی، وصحیح ابی داود للألبانی ۴؍ ۴۲۹) قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 24 (1161)، 25 (1162)، 26 (1168)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (743)، سنن الترمذی/الصلاة 197 (418)، (تحفة الأشراف: 17711)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/35)، وانظر ما یأتي برقم (1335) (صحیح)» (فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے یا بات کرنے والی روایت شاذ ہے، صحیح روایت یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد بات کرتے یا لیٹ جاتے، جیساکہ صحیحین کی روایتوں میں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن ذكر الحديث والاضطجاع قبل ركعتي الصبح شاذ
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور میں سو رہی ہوتی تو لیٹ جاتے اور اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 17 (743)، وفیہ ’’زیادہ بن سعد عن ابن أبي عتاب‘‘ بلا شک (تحفة الأشراف: 17707، 17732) (صحیح لغیرہ)» (حدیث نمبر 1336 سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک راوی مجہول اور ایک مہبم ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کے لیے نکلا، تو آپ جس آدمی کے پاس سے بھی گزرتے اسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پیر سے جگاتے جاتے تھے۔ زیاد کی روایت میں «حدثنا أبو الفضل» کے بجائے «حدثنا أبو الفضيل» ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11703) (ضعیف)» (اس کے راوی ابو الفضل انصاری مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|