) ابوتیاح نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قیامت کی علامات میں سے یہ (بھی) ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت جاگزیں ہو جائے گی، شراب پی جانے لگے گی اور زنا کھل کر ہونے لگے گا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کی علامت میں سے ہے علم اٹھالیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی،شراب پی جائے گی اور زنا عام ہو گا۔"
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان نہ کروں؟ یہ حدیث میرے بعد تم کو کوئی ایسا شخص نہیں بیان کرے گا جس نے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (براہ راست) سنی ہو: "قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت نمایاں ہو جائے گی، زنا پھیل جائے گا، شراب پی جانے لگی گی، مرد رخصت ہو جائیں گے اور عورتیں باقی رہ جائیں گی یہاں تک کہ پچاس عورتوں کے معاملات کا نگران ایک رہ جائے گا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تلامذہ سے کہا، کیا میں تمھیں ایسی حدیث نہ سناؤں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، میرے بعد آپ سے سننے والا کوئی تمھیں یہ حدیث نہیں سنائے گا۔"قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔"جہالت پھیل جائے گی۔یا اس کا غلبہ ہو گا، زنا عام ہو گا شراب عام پی جائے گی۔ مرد ختم ہوتے جائیں گے اور عورتیں رہ جائیں گی حتی کہ پچاس عورتوں کا نگران و نگہان ایک ہو گا۔"
محمد بن بشر، عبدہ اور ابواسامہ، ان سب نے سعید بن ابی عروبہ سے روایت کی، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ ابن بشر اور عبدہ کی حدیث میں ہے: میرے بعد یہ حدیث تمہیں کوئی نہیں سنائے گا۔ میں نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، پھر اسی (شعبہ کی حدیث) کے مانند بیان کیا۔
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔ ابن بشر اور عبدہ کی حدیث میں ہے میرے بعد تمھیں کوئی یہ حدیث نہیں سنائے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔"
وکیع اور عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابووائل سے حدیث بیان کی، کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت سے کچھ عرصہ پہلے وہ ایام ہوں گے جن میں علم اٹھ جائے گا، جہل طاری ہو جائے گا اور ان دنوں ہرج کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج (سے مراد) لوگوں کا قتل ہے۔"
ابووائل بیان کرتے ہیں۔میں حضرت عبد اللہ اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا دونوں نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت سے پہلے کچھ ایسے دن ہیں جن میں علم اٹھالیا جائےگا اور ان میں جہالت اتر آئےگی اور ان میں قتل بکثرت ہوں گے "هَرَج" قتل کو کہتے ہیں۔"
جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل سے روایت کی، کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہ دونوں احادیث بیان کر رہے تھے تو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسی (سابقہ حدیث) کے مانند۔
امام صاحب ایک اور استاد سے ابو وائل ہی کے واسطہ سے حضرت ابو موسیٰ سے مذکو بالا روایت بیان کرتے ہیں جبکہ مجلس میں عبد اللہ اور ابو موسیٰ دونوں باہمی گفتگو کر رہے تھے۔"
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ باہم قریب ہو جائے گا (وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہو گا)، علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے نمودار ہوں گے، (دلوں میں) بخل اور حرص ڈال دیا جائے گا اور ہرج کثرت سے ہو گا۔" صحابہ نے پوچھا: ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل و غارت گری۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"زمانہ قریب ہو جائے گا، علم قبض کر لیا جائے گا۔ فتنے ظاہر ہوں گے،دلوں میں حرص و لالچ ڈال دی جائے گی اور قتل بکثرت ہوں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا "هَرَج" کسے کہتے ہیں، فرمایا قتل کو۔"
شعیب نے زہری سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمٰن زہری نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ باہم قریب ہو جائے گا اور علم کم ہو جائے گا۔" پھر اسی کے مانند بیان کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"زمانہ قریب ہو جائے گا، علم قبض کر لیا جائے گا۔ آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔"
معمر نے زہری سے، انہوں نے سعید (بن مسیب) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "زمانہ باہم قریب ہو جائے گا اور علم اٹھا لیا جائے گا۔" پھر ان دونوں (یونس اور شعیب) کی حدیث کے مانند بیان کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"زمانہ قریب ہو گا،اور علم کم ہوگا۔"آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ".
جریر نے ہشام بن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتی کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے، لیکن وہ علماء کو قبض (فوت) کر کے علم قبض فرمائے گا، حتی کہ جب وہ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا، لوگ جاہلوں کو رئیس (امیر) بنا لیں گے، ان سے دریافت کیا جائے گا،چنانچہ وہ علم کے بغیر فتوی (جواب) دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حماد بن زید، عباد بن عباد، ابومعاویہ، وکیع، ابن ادریس، ابواسامہ، ابن نمیر، عبدہ، سفیان (بن عیینہ)، یحییٰ بن سعید، عمر بن علی اور شعبہ بن حجاج، سب نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جریر کی روایت کردہ حدیث کے مطابق روایت کی اور عمر بن علی کی حدیث میں مزید یہ ہے: پھر میں ایک سال بعد حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث مجھے دوبارہ اسی طرح سنائی جیسے (پہلے) بیان کی تھی۔ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی مختلف سندوں سے، ہشام بن عروہ کی مذکورہ بالا سند مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، عمر بن علی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر میں سال کے اختتام پر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے پہلے کی طرح حدیث دہرادی اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"
حدثنا حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، حدثني ابو شريح ، ان ابا الاسود حدثه، عن عروة بن الزبير ، قال: قالت لي عائشة: يا ابن اختي بلغني، ان عبد الله بن عمرو مار بنا إلى الحج، فالقه فسائله، فإنه قد حمل عن النبي صلى الله عليه وسلم علما كثيرا، قال: فلقيته فساءلته عن اشياء يذكرها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عروة: فكان فيما ذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله لا ينتزع العلم من الناس انتزاعا، ولكن يقبض العلماء، فيرفع العلم معهم ويبقي في الناس رءوسا جهالا يفتونهم بغير علم، فيضلون ويضلون "، قال عروة: فلما حدثت عائشة بذلك، اعظمت ذلك وانكرته، قالت: احدثك انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول هذا، قال عروة: حتى إذا كان قابل؟ قالت له: إن ابن عمر وقد قدم، فالقه ثم فاتحه، حتى تساله عن الحديث الذي ذكره لك في العلم، قال: فلقيته فساءلته، فذكره لي نحو ما حدثني به في مرته الاولى، قال عروة: فلما اخبرتها بذلك، قالت: ما احسبه إلا قد صدق اراه لم يزد فيه شيئا ولم ينقص.حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ: يَا ابْنَ أُخْتِي بَلَغَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو مَارٌّ بِنَا إِلَى الْحَجِّ، فَالْقَهُ فَسَائِلْهُ، فَإِنَّهُ قَدْ حَمَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِلْمًا كَثِيرًا، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ عَنْ أَشْيَاءَ يَذْكُرُهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَكَانَ فِيمَا ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْتَزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ، فَيَرْفَعُ الْعِلْمَ مَعَهُمْ وَيُبْقِي فِي النَّاسِ رُءُوسًا جُهَّالًا يُفْتُونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ "، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا حَدَّثْتُ عَائِشَةَ بِذَلِكَ، أَعْظَمَتْ ذَلِكَ وَأَنْكَرَتْهُ، قَالَتْ: أَحَدَّثَكَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ هَذَا، قَالَ عُرْوَةُ: حَتَّى إِذَا كَانَ قَابِلٌ؟ قَالَتْ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَمْرٍ وَقَدْ قَدِمَ، فَالْقَهُ ثُمَّ فَاتِحْهُ، حَتَّى تَسْأَلَهُ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي ذَكَرَهُ لَكَ فِي الْعِلْمِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ، فَذَكَرَهُ لِي نَحْوَ مَا حَدَّثَنِي بِهِ فِي مَرَّتِهِ الْأُولَى، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا أَخْبَرْتُهَا بِذَلِكَ، قَالَتْ: مَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ أَرَاهُ لَمْ يَزِدْ فِيهِ شَيْئًا وَلَمْ يَنْقُصْ.
عبداللہ بن وہب نے کہا: مجھے ابوشُریح نے حدیث بیان کی کہ انہیں ابواسود نے عروہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا: بھانجے! مجھے خبر ملی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں (مدینہ) سے گزر کر حج پر جانے والے ہیں۔ تم ان سے ملو اور ان سے سوال کرو۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا علم حاصل کر کے محفوظ کر رکھا ہے۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور بہت سی چیزوں کے بارے میں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، ان سے پوچھا۔ عروہ نے کہا: انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یک لخت چھین نہیں لے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے ساتھ علم کو بھی اٹھا لے گا۔ اور لوگوں میں جاہل سربراہوں کو باقی چھوڑ دے گا جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور (لوگوں کو بھی) گمراہ کریں گے۔" عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی بات سمجھا اور اس کو غیر معروف (ناقابل قبول) قرار دیا۔ اور فرمایا: کیا انہوں نے تمہیں بتایا تھا کہ انہوں نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ نے یہ بات کہی تھی؟ عروہ نے کہا: یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ان سے کہا: (عبداللہ) بن عمرو رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں، ان سے ملو، ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرو، یہاں تک کہ ان سے اسی حدیث کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے علم کے حوالے سے تمہیں بیان کی تھی۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث میرے سامنے (بالکل) اسی طرح بیان کر دی جس طرح پہلی بار بیان کی تھی۔ عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا، میں دیکھ رہی ہوں کہ انہوں نے اس میں نہ کوئی چیز بڑھائی ہے نہ کم کی ہے۔
حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:"اے میرے بھانجے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لیے ہمارے ہاں وسے گزرنے والے ہیں تو ان سے مل کر ان سے دریافت کرو، کیونکہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سا علم حاصل کیا ہے چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے ان چند باتوں کے بارے میں دریافت کیا، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے جو باتیں انھوں نے بیان کیں ان میں یہ بھی تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ لوگوں کے دلوں سے علم نہیں نکالے گا، لیکن علماء کو قبض کرے گا،سو علم بھی ان کے ساتھ اٹھ جائے گااور لوگوں میں جاہلوں کو سردار بنا چھوڑےگا، جو انہیں علم کے بغیر جوابات دیں گے خود بھی گمراہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں تو جب میں نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سنائی، انھوں نے اس کو بڑا سمجھا اور اس کا انکار اور اور پوچھا کیا تجھے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ عروہ کہتے ہیں جب اگلا سال آیا توانھوں نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے مجھے فرمایا، حضرت ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہوئے ہیں انہیں ملو، پھر بات چیت کا آغاز کرو، حتی کہ تم ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کرنا جو انھو ں نے تمھیں علم کے بارے میں سنائی تھی، چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے پہلی دفعہ کی طرح حدیث سنادی تو جب میں نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی انھوں نے کہا، میرے خیال میں انھوں نے صحیح کہا ہے میں جان رہی ہوں انھوں نے اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی۔