Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْعِلْمِ
علم کا بیان
5. باب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ وَالْفِتَنِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ:
باب: آخر زمانہ میں علم کی کمی ہونا۔
حدیث نمبر: 6796
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ".
جریر نے ہشام بن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتی کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے، لیکن وہ علماء کو قبض (فوت) کر کے علم قبض فرمائے گا، حتی کہ جب وہ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا، لوگ جاہلوں کو رئیس (امیر) بنا لیں گے، ان سے دریافت کیا جائے گا،چنانچہ وہ علم کے بغیر فتوی (جواب) دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6796 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6796  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ دلوں سے علم کو چھین سکتا ہے کہ وہ اس کو مٹا دے یا دلوں سے محو کر دے،
لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا،
پختہ کار اور ثقہ عالم فوت ہو جائیں گے،
جس کی بنا پر علم دن بہ دن کم ہوتا جائے گا اور آخر کار کالعدم ہو جائے گا اور جاہلوں کا دور دورہ ہو گا،
جس کا آغاز کافی عرصہ سے ہو چکا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6796   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 206  
´علماء کے اٹھنے سے بربادی ہو گی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (آخر زمانے میں) اس طرح علم نہیں نکالے گا کہ بندوں کے دل و دماغ سے نکال ڈالے بلکہ علماء (حقانی) کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لے گا۔ جبکہ کوئی عالم باعمل باقی نہیں رہے گا۔ تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے ان سے دینی فتوی دریافت کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی کا جواب دیں گے جس سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 206]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 100]،
[صحيح مسلم 6796]

فقہ الحدیث:
➊ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے۔
➋ کتاب وسنت کا وجود قیامت تک رہے گا لیکن علمائے حق میں عام طور پر کمی آتی رہے گی۔
➌ صحیح بخاری کی ایک روایت میں «فيفتون برأيهم» (پس وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے) کے الفاظ آتے ہیں۔ [كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ح7307]
یعنی وہ لوگ اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے اور قیامت سے پہلے ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی رائے سے قرآن و حدیث کے خلاف فتوے دیتے رہیں گے۔
➍ تقلید شخصی بدعت ہے اور کتاب و سنت کے مقابلے میں تقلید کرنا حرام ہے۔
➎ گمراہوں سے بچنا ضروری ہے ورنہ آخرت برباد ہو جائے گی۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 206   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 100  
´علم کا اٹھایا جانا`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 100]
تشریح:
پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ بھی رکھتے ہوں اور احکام اسلام کے دقائق و مواقع کو بھی جانتے ہوں، ایسے پختہ دماغ علماء ختم ہو جائیں گے اور سطحی لوگ مدعیان علم باقی رہ جائیں گے جو ناسمجھی کی وجہ سے محض تقلید جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور ایسے لوگ اپنے غلط فتووں سے خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ یہ ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر فربری کی روایت ہے جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور صحیح بخاری کے اولین راوی یہی فربری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض روایتوں میں «بغير علم» کی جگہ «برايهم» بھی آیا ہے۔ یعنی وہ جاہل مدعیان علم اپنی رائے قیاس سے فتویٰ دیا کریں گے۔ «قال العيني لايختص هذا بالمفتيين بل عام للقضاة الجاهلين» یعنی اس حکم میں نہ صرف مفتی بلکہ عالم جاہل قاضی بھی داخل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 100   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7307  
7307. سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حج پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا پھر جاہل لوگ وہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے خود بھی گمراہ ہوں گے۔۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے میرے بھانجے! تم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور تم نے جو حدیث ان کے حوالے سے مجھے بیان کی تھی اس کی تحقیق کرو۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7307]
حدیث حاشیہ:
کہ اتنی مدت کے بعد بھی حدیث میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7307   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث52  
´رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 52]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمان شرعی علوم سے یک بارگی محروم نہیں ہوں گے بلکہ بتدریج یہ نوبت آئے گی کہ معاشرے سے علماء ختم ہو جائیں گے، اس طرح شرعی علوم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

(2)
اس خطرناک صورت حال سے حتی الامکان محفوظ رہنے کے لیے مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ وہ شرعی علوم کے ماہر علماء پیدا کرے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔

(3)
عالم کا فرض ہے کہ وہ علم یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی دے، محض اپنی رائے اور قیاس پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی نہ دے۔

(4)
شرعی دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض عقل کی روشنی میں شرعی مسائل پر رائے دینے کی کوشش گمراہی ہے جس کے نتیجے میں عوام میں بھی گمراہی پھیلتی ہے۔

(5)
نصوص پر عقلی دلائل کو ترجیح دینے سے شریعت کی اہمیت کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے فتنے پھیلتے ہیں۔
ماضی میں خوارج، معتزلہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بھی یہی تھا اور دور حاضر میں بھی عقل ہی کے نام سے طرح طرح کے فتنے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کا علاج یہی ہے کہ قرآن و حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے اور ہر پیش آمدہ مسئلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح موقف کو واضح کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 52   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:592  
592- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کویوں قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں میں سے نکال لے گا بلکہ وہ اسے علماء کو قبض کر کے قبض کرے گا، پھر وہ کسی عالم کوباقی نہیں رہنے دے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ وہ ان سے مسئلے دریافت کریں گے، تو وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود انہیں جواب دیں گے۔وہ لوگ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ عروہ کہتے ہیں۔ پھر کئی سال گزرگئے پھر میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:592]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اہل علم کا وجود ایک بہت بڑی نعمت ہے، ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے، ان کی قدر کرنی چاہیے علم کے صحیح اہل علماء کرام ہی ہوتے ہیں، جب یہ فوت ہو جاتے ہیں تو گویا ہم علم کے سمندروں سے محروم ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھی اہل علم کی وفات کے ساتھ علم کو کم کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتنی محنت کے ساتھ کوئی اہل علم علم کا شہسوار بنتا ہے، ایک امت اس سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہے لیکن جب وہ اہل علم فوت ہو جاتا ہے تو اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امت کو بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو، اور لوگ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اب کس سے دینی رہنمائی لیں گے۔
راقم کی زندگی میں چند محدثین فوت ہوئے جن کے فوت ہونے سے علمی دنیا میں بہت بڑا خلاء محسوس کیا گیا، مثلاً محدث العصر شیخ الحدیث خاتمة الحفاظ حافظ عبدالمنان نورپوری، محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، دکتورعبدالرشید اظہر، امام العصر محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ وغیرہ۔
جب صحیح اہل علم فوت ہو جاتے ہیں تو ان کے پیچھے کم پڑھے لکھے اہل علم رہ جاتے ہیں، جو لوگوں کو غلط فتویٰ دیتے ہیں، گویا وہ خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ بوجھ کے لیے ہر دور میں ایک جماعت ہونی چاہیے، جو لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتی رہے، فتویٰ بڑی محنت کے بعد قرآن و حدیث کے مطابق دینا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 592   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6799  
حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:"اے میرے بھانجے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لیے ہمارے ہاں وسے گزرنے والے ہیں تو ان سے مل کر ان سے دریافت کرو، کیونکہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سا علم حاصل کیا ہے چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے ان چند باتوں کے بارے میں دریافت کیا، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6799]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کسی ایک فاضل اور فقیہ اور مزاج رسول کی شناسائی رکھنے والے کو کسی حدیث کا علم نہیں ہے تو اس کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ یہ حدیث ہی نہیں ہے،
نیز کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی درایت و عقل پر بھی کسی حدیث کو نہیں پرکھا جا سکتا کہ اس کی عقل و درایت میں یہ حدیث نہ آتی ہو تو اس کا انکار کر دیا جائے،
جیسا کہ آج کل یہ فتنہ پھیل رہا ہے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض وجوہ کی بنا پر،
اس حدیث کو بڑا خیال کرتے ہوئے انکار کرتی ہیں اور پوچھتی ہیں،
کیا واقعی انہوں نے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی تھی،
کہیں انہوں نے اہل کتاب کی کتب سے تو نقل نہیں کیا،
یا تم نے تو نسبت کرنے میں غلطی نہیں کی،
حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔
(2)
اگلے سال جب حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ،
مصر سے حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عروہ بن زبیر بھی وہاں موجود تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کے مطابق عروہ رحمہ اللہ نے پھر حضرت عبداللہ سے یہ حدیث پوچھی اور انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دی،
جو اس بات کی دلیل ہے،
صحابہ کرام احادیث کے بیان کرنے میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتے تھے اور انہیں یاد رکھتے تھے اور اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہو گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو آپ کی طرف نسبت کرنے میں وہم لاحق نہیں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6799   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:100  
100. حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ دین کے علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ اہل علم کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:100]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ علوم و فنون کو سینوں سے محو کر دینے پر قادر ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔
بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہو گی کہ خود علماء ختم ہو جائیں گے اور دوسرے علماء پیدا نہ ہوں گے۔
اس حدیث میں علم کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔
ہر عالم کا فریضہ ہے کہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑے، بصورت دیگر جہلا علماء کی جگہ بیٹھیں گے اور گمراہی پھیلائیں گے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم حدیث کی بنیاد پر فتوی دینا ہی حقیقی ریاست ہے۔
(فتح الباري: 258/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 100   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7307  
7307. سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ حج پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں علم دے کر پھر اسے یونہی نہیں چھین لے گا بلکہ علم اس طرح اٹھائے گا کہ علماء حضرات فوت ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ ہی علم اٹھ جائے گا پھر جاہل لوگ وہ جائیں گے۔ ان سے فتویٰ لیا جائے گا تو وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے خود بھی گمراہ ہوں گے۔۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے میرے بھانجے! تم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور تم نے جو حدیث ان کے حوالے سے مجھے بیان کی تھی اس کی تحقیق کرو۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7307]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اس قسم کے قیاس اور رائے کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
ہماری فقہ میں سینکڑوں ایسے ساختہ مسائل موجود ہیں جو کتاب وسنت سے ٹکراتے ہیں اور واضح طور پر اس کے خلاف ہیں۔
اسی طرح رائے مذموم کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اصحاب رائے سے بچا کرو کیونکہ وہ سنتوں کے دشمن ہیں احادیث کو یاد رکھنے سے ان کی ہمتیں جواب دے گئیں تو انھوں نے رائے عقل اور قیاس سے کام لینا شروع کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگادیا۔
(شرح أصول اعتقاد أھل السنة: 136/1)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
علماء کے رخصت ہونے کے بعد قحط رجال کا دور ہوگا پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی معاملات کو قیاس اور رائے سے حل کریں گے اس طرح وہ عمارت اسلام کو زمین بوس کرنے کا باعث ہوں گے۔
(فتح المنان: 216/2)

بہر حال ان بزرگوں نے جس رائے اور قیاس کی مذمت کی ہے اس سے مراد وہ رائے ہے جو کتاب وسنت سے اخذ نہ کی گئی ہو۔
بلا شبہ نص کے ہوتے ہوئے رائے اور قیاس سے کام لینا بہت بڑی گمراہی ہے۔
(فتح الباري: 354/13)
بہر حال اگر کسی کو کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو احتیاط کرنی چاہیے۔
رائے زنی سے بچتے ہوئے اس پیش آنے والے مسئلے جیسے دوسرے مسئلوں پر غور کرے اور ان کی روشنی میں پیش آنے والے مسئلے کا حق تلاش کرے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7307