كِتَاب الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنْ الْحَيَوَانِ شکار کرنے، ذبح کیے جانے والے اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت کھایا جا سکتا ہے The Book of Hunting, Slaughter, and what may be Eaten 7. باب إِبَاحَةِ الضَّبِّ: باب: گوہ کا گوشت حلال ہے (یعنی سوسمار کا)۔ Chapter: The permissibility of eating the Dabb (mastigure) عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سانڈے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرما یا: "میں اس کو کھاتا ہو نہ حرام کرتا ہوں۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
لیث نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سانڈا کھا نے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرما یا: " نہ میں اس کو کھاتا ہوں، نہ حرا م کرتا ہوں۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کھانے کے بارے میں پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اسے میں حرام ٹھہراتا ہوں۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عبید اللہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سانڈا کھا نے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرما یا: " میں اس کو کھاتا ہو ں نہ حرا م کرتاہوں۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کھانے کے بارے میں سوال کیا، جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ میں اس کو حرام کہتا ہوں۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ نے عبید اللہ سے اسی سند سے اسی کے مانند روایت کی۔ یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ایوب، مالک بن مغول، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ اور اسامہ سب نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سانڈے کے بارے میں نافع سے روایت کردہ لیث کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی، البتہ ایوب کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سانڈا (پکا کر) لایا گیا تو آپ نے اسے کھا یا نہ حرام قرار دیا۔اسامہ کی حدیث میں کہا: ایک آدمی مسجد میں کھڑا ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔ امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے گوہ کے بارے میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، حدیث نمبر 40 کے مطابق نقل کرتے ہیں، ایوب کی حدیث کے الفاظ یوں ہیں، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوہ لائی گئی، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ کھایا اور نہ حرام قرار دیا" اسامہ کی حدیث ہے، ایک آدمی مسجد میں کھڑا ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن توبة العنبري ، سمع الشعبي ، سمع ابن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم كان معه ناس من اصحابه، فيهم سعد واتوا بلحم ضب، فنادت امراة من نساء النبي صلى الله عليه وسلم إنه لحم ضب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كلوا فإنه حلال ولكنه ليس من طعامي ".وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ ، سَمِعَ الشَّعْبِيَّ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فِيهِمْ سَعْدٌ وَأُتُوا بِلَحْمِ ضَبٍّ، فَنَادَتِ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُوا فَإِنَّهُ حَلَالٌ وَلَكِنَّهُ لَيْسَ مِنْ طَعَامِي ". عبید اللہ کے والد معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے تو بہ عنبری سے حدیث بیان کی، انھوں نے شعبی سے سنا، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں سانڈے کا گو شت لا یا گیا: اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ نے یہ آواز دی کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کھاؤ، بلا شبہ حلال ہے لیکن یہ میرے کھانے میں (شامل) نہیں۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کچھ ساتھی تھے، جن میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، ان کے پاس ضب کا گوشت لایا گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے، ایک بیوی نے آواز دی، یہ ضب کا گوشت ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے، لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن توبة العنبري ، قال: قال لي الشعبي : ارايت حديث الحسن عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقاعدت ابن عمر قريبا من سنتين او سنة ونصف، فلم اسمعه روى عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا، قال: كان ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم سعد بمثل حديث معاذ.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ : أَرَأَيْتَ حَدِيثَ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَاعَدْتُ ابْنَ عُمَر قَرِيبًا مِنْ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةٍ وَنِصْفٍ، فَلَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا، قَالَ: كَانَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ سَعْدٌ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُعَاذ. محمدبن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے تو بہ عنبری سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: شعبی نے مجھ سے کہا: تم حسن (بصری) کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ (مرسل) حدیث دیکھی (سنی اور لکھی ہو ئی دیکھی، اور اس کے مرسل ہونے پر غور کیا؟) میں تو حضرت ابن معر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ڈیڑھ یا دوسال تک (اٹھتا) بیٹھتا رہا لیکن میں نے انھیں اس حدیث کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور حدیث روایت کرتے ہو ئے نہیں سنا۔ انھوں نے (اس طرح) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے بہت سے لو گ (مو جودتھے) ان میں سعد رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔معاذ کی حدیث کے مانند۔ توبہ عنبری کہتے ہیں کہ مجھے شعبی نے کہا، کیا آپ حسن کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات سے آگاہ ہیں، حالانکہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ دو سال یا ڈیڑھ سال بیٹھا ہوں، اتنے عرصہ میں، میں نے ان سے صرف یہ حدیث سنی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی تھے، ان میں حضرت سعد بھی تھے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، عن عبد الله بن عباس ، قال: دخلت انا وخالد بن الوليد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال: بعض النسوة اللاتي في بيت ميمونة اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، فقلت: احرام هو يا رسول الله؟، قال: " لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه "، قال خالد: فاجتررته فاكلته، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيد مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ مَيْمُونَةَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: بَعْضُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ أَخْبِرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقُلْتُ: أَحَرَامٌ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ "، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ. امام مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، اتنے میں ایک بھنا ہوا سانڈا لا یا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے کا قصد کیا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر جو عورتیں تھیں۔ان میں سے کسی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز کھانے لگے ہیں وہ آپ کو بتا دو، (یہ سنتے ہی) آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حرا م ہے؟ آپ نے فرمایا: " نہیں لیکن یہ (جا نور) میری قوم کی سر زمین میں نہیں ہو تا، اس لیے میں خود کو اس سے کرا ہت کرتے ہو ئے پاتا ہوں۔" حضرت خالد (بن ولید) رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اس کو (اپنی طرف) کھینچا اور کھا لیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اپنی خالہ) حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر گئے، تو آپ کے پاس بھنی ہوئی ضب لائی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، تو حضرت میمونہ کے گھر موجود بعض عورتوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو، آپ کیا کھانا چاہ رہے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھالیا، میں نے پوچھا، کیا وہ حرام ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”نہیں، لیکن وہ میری قوم کی سرزمین (کی خوراک) نہیں، اس لیے میں اس سے کراہت محسوس کرتا ہوں۔“ حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو میں نے اس کو کھینچ کر کھالیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة جميعا، عن ابن وهب ، قال حرملة: اخبرنا ابن وهب، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف الانصاري ، ان عبد الله بن عباس اخبره، ان خالد بن الوليد الذي يقال له سيف الله، اخبره انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وهي خالته وخالة ابن عباس، فوجد عندها ضبا محنوذا قدمت به اختها حفيدة بنت الحارث من نجد، فقدمت الضب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان قلما يقدم إليه طعام حتى يحدث به ويسمى له، فاهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم يده إلى الضب، فقالت امراة من النسوة الحضور: اخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قدمتن له قلن هو الضب يا رسول الله، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، فقال خالد بن الوليد: احرام الضب يا رسول الله؟، قال: " لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه "، قال خالد: فاجتررته فاكلته ورسول الله ينظر فلم ينهني.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ جميعا، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ ، قَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ سَيْفُ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدَّمُ إِلَيْهِ طَعَامٌ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ قُلْنَ هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ "، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ يَنْظُرُ فَلَمْ يَنْهَنِي. یو نس نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف انصاری سے روایت کی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں بتا یا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنھیں سیف اللہ کہا جا تا ہے، انھیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے وہ ان (حضرت خالد) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ان کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بھنا ہوا سانڈا دیکھا جو ان کی بہن حفیدہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نجد سے لا ئی تھیں۔انھوں نے وہ سانڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، ایسا کم ہو تا کہ آپ کسی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا تے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتا یا جا تا اور آپ کے سامنے اس کا نام لیا جا تا۔ (اس روز) آپ نے سانڈے کی طرف ہاتھ بڑھانا چا ہا تو وہاں مو جود خواتین میں سے ایک خاتون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کہ آپ لوگوں نے انھیں کیا پیش کیا ہے۔ تو انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ سانڈا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہا تھ اوپر کر لیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پو چھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: " نہیں لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں ہو تا، میں خود کو اس سے کرا ہت کرتے ہو ئے پا تا ہوں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اس کو (اپنی طرف) کھینچا اور کھا لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے لیکن آپ نے مجھے منع نہیں فرمایا۔" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید جن کو سیف اللہ کا لقب دیا جاتا ہے، نے مجھے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا جو حضرت خالد اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خالہ ہیں، کے پاس گیا، تو آپ نے ان کے ہاں بھنی ہوئی ضب پائی، جو ان کی ہمشیرہ حفیدہ بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا نجد سے لائی تھی، تو انہوں نے ضب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی، آپ کو جب کوئی کھانا پیش کیا جاتا تو عموماً آپ کو اس سے آگاہ کر دیا جاتا اور آپ کو اس کا نام بتا دیا جاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو، تم نے انہیں کیا پیش کیا ہے، انہوں نے کہا، وہ ضب ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھالیا، خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ضب حرام ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن وہ میری قوم کی زمین میں نہیں، اس لیے میں اس سے کراہت محسوس کرتا ہوں۔“ خالد کہتے ہیں، میں نے اسے کھینچ لیا اور اسے کھالیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے، آپ نے مجھے نہ روکا۔ حفیدہ کی کنیت ام حفید ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صالح بن کیسان نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو امامہ بن سہل سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے ان سے بیان کیا کہ انھیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ حضرت میمونہ بنت حا رث رضی اللہ عنہا کے ہا ں گئے، وہ ان کی خالہ تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سانڈے کا گو شت پیش کیا گیا، اسے ام حفید بنت حارث رضی اللہ عنہا نجد سے لا ئی تھیں، یہ نبو جعفر کے ایک شخص کے نکاح میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک کوئی چیز تناول نہ فرماتے تھے۔ جب تک کہ آپ کو معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کیا ہے۔پھر انھوں نے یونس کی حدیث کی طرح بیان کیا اور حدیث کے آخر میں اضا فہ کیا اور انھیں (یزید) ابن اصم نے (بھی) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے (یہی) حدیث سنائی، انھوں نے ان (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں پرورش پا ئی۔ (ان کی والدہ برزہ بنت حارث ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر داخل ہوئے، تو آپ کو ضب کا گوشت پیش کیا گیا، جو ام حفید بنت حارث نجد سے لائیں تھیں اور وہ بنوجعفر کے ایک آدمی کی بیوی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز اس وقت تک نہیں کھاتے تھے، جب تک یہ جان نہ لیتے، وہ کیا ہے، آگے مذکورہ بالا روایت ہے، جس کے آخر میں یہ اضافہ ہے، اور اسے ابن اصم نے بھی، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا اور وہ ان کی گود میں تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے زہری سے، انھوں نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبھنے ہو ئے سانڈے پیش کیے گئے جبکہ ہم سب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مو جو دتھے ان سب کی حدیث کے مانند انھوں نے (معمر) نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ یزید بن اصم کی حدیث کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں تھے، آپ کے پاس دو بھنی ہوئی ضب لائی گئیں، آگے مذکورہ بالا روایت ہے اور اس میں یزید بن الاصم کا میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن منکدر سے روایت ہے کہ ابو امامہ بن سہل نے انھیں بتا یا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سانڈے کا گوشت لا یا گیا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرماتے اور ان کے ساتھ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی مو جود تھے پھر زہری کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا کے گھر میں تھے اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے پاس موجود تھے، ضب کا گوشت لایا گیا، آگے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن بشار ، وابو بكر بن نافع ، قال ابن نافع: اخبرنا غندر ، حدثنا شعبة ، عن ابي بشر ، عن سعيد بن جبير ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: اهدت خالتي ام حفيد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم سمنا واقطا واضبا، " فاكل من السمن والاقط وترك الضب تقذرا واكل على مائدة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو كان حراما، ما اكل على مائدة رسول الله صلى الله عليه وسلم ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ ابْنُ نَافِعٍ: أَخْبَرَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَهْدَتْ خَالَتِي أَمُّ حُفَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، " فَأَكَلَ مِنَ السَّمْنِ وَالْأَقِطِ وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ كَانَ حَرَامًا، مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". سعید بن جبیر نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری خالہ ام حفید رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھی پنیر اور سانڈے ہدیہ کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھی اور پنیر میں سے تناول فرمایا اور سانڈے کو کراہت محسوس کرتے ہو ئے چھوڑدیا۔ یہ (سانڈ ا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھا یا گیا۔ اگر یہ حرام ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر نہ کھا یا جا تا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، میری خالہ ام حفید رضی اللہ تعالی عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھی، پنیر اور ضب پیش کیں، آپ نے گھی اور پنیر کھالیا اور ضب کو کراہت کی بنا پر چھوڑ دیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا گیا، اگر وہ حرام ہوتی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر نہ کھایا جاتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن الشيباني ، عن يزيد بن الاصم ، قال: دعانا عروس بالمدينة، فقرب إلينا ثلاثة عشر ضبا، فآكل وتارك، فلقيت ابن عباس من الغد فاخبرته فاكثر القوم حوله حتى، قال بعضهم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا آكله ولا انهى عنه ولا احرمه "، فقال ابن عباس : بئس ما قلتم ما بعث نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا محلا ومحرما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو عند ميمونة وعنده الفضل بن عباس، وخالد بن الوليد، وامراة اخرى إذ قرب إليهم خوان عليه لحم، فلما اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان ياكل، قالت له ميمونة: إنه لحم ضب، فكف يده، وقال: " هذا لحم لم آكله قط "، وقال لهم: كلوا، فاكل منه الفضل، وخالد بن الوليد، والمراة، وقالت ميمونة: لا آكل من شيء إلا شيء ياكل منه رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، قَالَ: دَعَانَا عَرُوسٌ بِالْمَدِينَةِ، فَقَرَّبَ إِلَيْنَا ثَلَاثَةَ عَشَرَ ضَبًّا، فَآكِلٌ وَتَارِكٌ، فَلَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنَ الْغَدِ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَكْثَرَ الْقَوْمُ حَوْلَهُ حَتَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا آكُلُهُ وَلَا أَنْهَى عَنْهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ "، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بِئْسَ مَا قُلْتُمْ مَا بُعِثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مُحِلًّا وَمُحَرِّمًا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَعِنْدَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَامْرَأَةٌ أُخْرَى إِذْ قُرِّبَ إِلَيْهِمْ خُوَانٌ عَلَيْهِ لَحْمٌ، فَلَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَ، قَالَتْ لَهُ مَيْمُونَةُ: إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَكَفَّ يَدَهُ، وَقَالَ: " هَذَا لَحْمٌ لَمْ آكُلْهُ قَطُّ "، وَقَالَ لَهُمْ: كُلُوا، فَأَكَلَ مِنْهُ الْفَضْلُ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَالْمَرْأَةُ، وَقَالَتْ مَيْمُونَةُ: لَا آكُلُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَيْءٌ يَأْكُلُ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. شیبانی نے یزید بن اصم سے روایت کی، کہا: مدینہ منورہ میں ایک دلھا نے ہماری دعوت کی اور ہمیں تیرہ عدد (بھنے ہو ئے) سانڈے پیش کیے۔کوئی (اس کو) کھا نے والا تھا کوئی نہ کھا نے والا۔ دوسرے دن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے ان کو یہ بات بتا ئی۔ان کے اردگرد مو جود لوگوں نے بہت سی باتیں کیں حتی کہ کسی نے یہ بھی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: " میں اسے نہ کھاتا ہوں نہ روکتا ہوں نہ اسے حرام کرتا ہوں۔"اس پر حضرت ابن عباس نے کہا: تم لو گوں نے جو کہا ناروا ہے۔اللہ تعا لیٰ نے جو نبی بھیجا وہ حلال کرنے والا اور حرام کرنے والا تھا (حلت و حرمت کے حکم کو واضح کرنے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تم سمجھ رہے ہو۔ غیر واضح بات نہیں کرتے تھے۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف فرما تھے اور آپ کے قریب فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ایک اور خاتون بھی مو جود تھی تو ان کے سامنے دسترخوان لا یا گیا جس پر گوشت تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھانے کا ارادہ کیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: یہ سانڈے کا گو شت ہے آپ نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا: " یہ ایسا گو شت ہے جو میں نے کبھی نہیں کھا یا۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: " کھاؤ۔سو اس گوشت میں سے فضل خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور اس خاتون نے کھا یا۔حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں تو صرف اس کھا نے میں سے کھا ؤں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھا ئیں گے۔ حضرت یزید بن اصم رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں، مدینہ میں ایک دولہا نے ہمیں دعوت دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب رکھے، کسی نے کھا لیا، کسی نے چھوڑ دیا، اگلے دن میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو ملا اور انہیں بتایا، لوگوں نے اس کے بارے میں بہت باتیں کیں، حتیٰ کہ بعض نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں اس کو کھاتا ہوں، نہ میں اس سے روکتا ہوں اور نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔“ تو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، تم نے بہت بری بات کہی، جو نبی بھی اللہ نے بھیجا ہے، حلال یا حرام کرنے کے لیے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ وہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا کے ہاں تھے اور آپ کے پاس فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک اور عورت تھی، کہ اچانک آپ کے سامنے دسترخوان لایا گیا، اس پر گوشت تھا، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کا ارادہ کیا، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا نے آپ سے کہا، یہ ضب کا گوشت ہے، تو آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا اور فرمایا: ”یہ وہ گوشت ہے، جو میں نے کبھی نہیں کھایا۔“ اور حاضرین سے کہا: ”تم کھاؤ۔“ تو اس سے فضل رضی اللہ تعالی عنہما، خالد بن ولید اور عورت نے کھایا اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا، میں تو وہی چیز کھاؤں گی، جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھائیں گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو زبیر نے حضرت جا بت بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سانڈ الا یا گیا۔آپ نے اسے کھا نے سے انکا ر کیا اور فرما یا: "میں نہیں جا نتا کہ شاید یہ (سانڈا بھی) ان قوموں میں سے ہو جن میں مسخ ہوا تھا۔" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب لائی گئی، تو آپ نے اس کے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ”میں نہیں جانتا، شاید یہ ان نسلوں سے ہو، جنہیں مسخ کر دیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو زبیر نے کہا: میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سانڈے کے متعلق سوال کیا، انھوں نے کہا: اسے مت کھاؤ۔اور اس سے اظہار کراہت کیا اور بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں کیا۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے (بھی) کو نفع پہنچاتا ہے، یہ عام چرواہوں کی غذا ہے۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مزید کہا:) اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔ ابو زبیر بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما سے ضب کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا، اسے نہ کھاؤ اور اس سے کراہت کا اظہار کیا اور بتایا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار نہیں دیا، اللہ عزوجل بہت سے لوگوں کو اس سے نفع پہنچائے گا، اکثر چرواہوں کی خوراک بس یہی ہے اور اگر یہ میرے پاس ہوتی، تو میں اسے کھاتا (مکہ اور مدینہ میں یہ نہیں تھی)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: قال رجل: يا رسول الله، إنا بارض مضبة فما تامرنا او فما تفتينا؟ قال ذكر لي ان امة من بني إسرائيل مسخت، فلم يامر ولم ينه. قال ابو سعيد: فلما كان بعد ذلك، قال عمر : " إن الله عز وجل لينفع به غير واحد، وإنه لطعام عامة هذه الرعاء ولو كان عندي لطعمته إنما عافه رسول الله صلى الله عليه وسلم ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ مَضَبَّةٍ فَمَا تَأْمُرُنَا أَوْ فَمَا تُفْتِينَا؟ قَالَ ذُكِرَ لِي أَنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ، فَلَمْ يَأْمُرْ وَلَمْ يَنْهَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ هَذِهِ الرِّعَاءِ وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لَطَعِمْتُهُ إِنَّمَا عَافَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". داود نے ابو نضرہ سے، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سانڈوں سے بھری ہوئی سرزمین میں رہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟یا کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ مجھے بتایاگیا کہ بنو اسرائیل کی ایک امت (بڑی جماعت) مسخ کر (کے رینگنے والے جانوروں میں تبدیل کر) دی گئی تھی۔" (اس کے بعد) آپ نے نہ اجازت دی اور نہ منع فرمایا۔ حضرت ابوسعید (خدری رضی اللہ عنہ) نے کہا: پھر بعد کا عہد آیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ عزوجل اس کے ذریعے سے ایک سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔یہ عام چرواہوں کی غذا ہے، اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھاتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نامرغوب محسوس کیا تھا۔ (اسے حرام قرار نہیں دیا تھا۔) حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص نے کہا، اے اللہ کے رسول! ہم ایسے علاقہ میں رہتے ہیں، جہاں ضب بہت ہیں، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یا آپ ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے بتایا گیا ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک جماعت مسخ کر دی گئی (شاید یہ وہ ہو)۔" اس لیے آپ نے نہ حکم دیا اور نہ روکا، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اس واقعہ کے بعد، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ عزوجل اس سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے اور ان عام چرواہوں کی خوراک یہی ہے اور اگر میرے پاس ہوتی تو میں اسے کھاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس سے کراہت محسوس کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا ابو عقيل الدورقي ، حدثنا ابو نضرة ، عن ابي سعيد ، ان اعرابيا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني في غائط مضبة وإنه عامة طعام اهلي، قال: فلم يجبه، فقلنا: عاوده فعاوده، فلم يجبه ثلاثا، ثم ناداه رسول الله صلى الله عليه وسلم في الثالثة، فقال يا اعرابي: " إن الله لعن او غضب على سبط من بني إسرائيل، فمسخهم دواب يدبون في الارض، فلا ادري لعل هذا منها فلست آكلها ولا انهى عنها ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي فِي غَائِطٍ مَضَبَّةٍ وَإِنَّهُ عَامَّةُ طَعَامِ أَهْلِي، قَالَ: فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقُلْنَا: عَاوِدْهُ فَعَاوَدَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ نَادَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ يَا أَعْرَابِيُّ: " إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ أَوْ غَضِبَ عَلَى سِبْطٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَمَسَخَهُمْ دَوَابَّ يَدِبُّونَ فِي الْأَرْضِ، فَلَا أَدْرِي لَعَلَّ هَذَا مِنْهَا فَلَسْتُ آكُلُهَا وَلَا أَنْهَى عَنْهَا ". ابوعقیل دورقی نے کہا: ہمیں ابو نضرہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں سانڈوں سے بھرے ہوئے ایک نشیبی علاقے میں رہتا ہوں اور میرے گھر والوں کی عام غذا یہی ہے۔آپ نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا، ہم نے اس سے کہا: دوبارہ عرض کرو، اس نے دوبارہ عرض کی، مگر آپ نے تین بار (دہرانے پر بھی) کوئی جواب نہ دیا، پھر تیسری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آواز دی اور فرمایا: "اے اعرابی! اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کسی گروہ پر لعنت کی یا غضب فرمایا اور ان کو زمین پر چلنے والے جانوروں کی شکل میں مسخ کردیا۔مجھے علم نہیں، شاید یہ انھی جانوروں میں سے ہو، (جن کی شکل میں ان لوگوں کو مسخ کیا گیا تھا) اس لیے نہ اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس سے روکتا ہوں۔" حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، میں ایک نشیبی، ضب والی زمین میں رہتا ہوں اور یہ میرے گھر والوں کا عمومی کھانا ہے، آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، تو ہم نے کہا، آپ سے دوبارہ پوچھیں، اس نے آپ سے دوبارہ پوچھا، تو آپ نے اسے جواب نہ دیا، تین دفعہ ایسے ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ آواز دی اور فرمایا: ”اے اعرابی! اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کے ایک خاندان پر لعنت بھیجی، یا ان سے ناراض ہوا اور انہیں جانوروں کی صورت میں مسخ کر دیا، وہ زمین میں چلتے ہیں، میں نہیں جانتا، شاید یہ ان میں سے ہو، اس لیے میں اسے نہیں کھاتا اور اسے روکتا بھی نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|