Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنْ الْحَيَوَانِ
شکار کرنے، ذبح کیے جانے والے اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت کھایا جا سکتا ہے
7. باب إِبَاحَةِ الضَّبِّ:
باب: گوہ کا گوشت حلال ہے (یعنی سوسمار کا)۔
حدیث نمبر: 5033
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ : أَرَأَيْتَ حَدِيثَ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَاعَدْتُ ابْنَ عُمَر قَرِيبًا مِنْ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةٍ وَنِصْفٍ، فَلَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا، قَالَ: كَانَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ سَعْدٌ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُعَاذ.
محمدبن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے تو بہ عنبری سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: شعبی نے مجھ سے کہا: تم حسن (بصری) کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ (مرسل) حدیث دیکھی (سنی اور لکھی ہو ئی دیکھی، اور اس کے مرسل ہونے پر غور کیا؟) میں تو حضرت ابن معر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ڈیڑھ یا دوسال تک (اٹھتا) بیٹھتا رہا لیکن میں نے انھیں اس حدیث کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور حدیث روایت کرتے ہو ئے نہیں سنا۔ انھوں نے (اس طرح) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے بہت سے لو گ (مو جودتھے) ان میں سعد رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔معاذ کی حدیث کے مانند۔
توبہ عنبری کہتے ہیں کہ مجھے شعبی نے کہا، کیا آپ حسن کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات سے آگاہ ہیں، حالانکہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ دو سال یا ڈیڑھ سال بیٹھا ہوں، اتنے عرصہ میں، میں نے ان سے صرف یہ حدیث سنی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی تھے، ان میں حضرت سعد بھی تھے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5033 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5033  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت شعبی رحمہ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ حسن بصری،
احادیث کے بیان کے شوق میں مرسل روایات بھی بیان کرتے ہیں،
جبکہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما آپ سے براہ راست روایات سننے کے باوجود بہت کم روایات بیان کرتے تھے،
کیونکہ وہ سمجھتے تھے،
کثرت سے روایات بیان کرنے میں غلطی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے،
جبکہ اس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5033