صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
5. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالْبِدَعِ:
باب: کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا۔
(5) Chapter. What is disliked of going deeply into and arguing about (religious) knowledge, and exaggerating in matter of religion, and of inventing heresies.
حدیث نمبر: Q7299
Save to word اعراب English
لقوله تعالى: ياهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق سورة النساء آية 171لِقَوْلِهِ تَعَالَى: يَأَهْلَ الْكِتَابِ لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلا الْحَقَّ سورة النساء آية 171
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق» کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو۔
حدیث نمبر: 7299
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تواصلوا، قالوا: إنك تواصل، قال:" إني لست مثلكم إني ابيت يطعمني ربي ويسقيني، فلم ينتهوا عن الوصال، قال: فواصل بهم النبي صلى الله عليه وسلم يومين او ليلتين، ثم راوا الهلال، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو تاخر الهلال لزدتكم كالمنكل لهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُوَاصِلُوا، قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ:" إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ، قَالَ: فَوَاصَلَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ، ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم صوم وصال (افطار و سحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اور میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said (to his companions), "Do not fast Al-Wisal." They said, "But you fast Al-Wisail." He said, "I am not like you, for at night my Lord feeds me and makes me drink." But the people did not give up Al-Wisal, so the Prophet fasted Al-Wisal with them for two days or two nights, and then they saw the crescent whereupon the Prophet said, "If the crescent had delayed, I would have continued fasting (because of you)," as if he wanted to vanquish them completely (because they had refused to give up Al Wisal).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 402


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7300
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثني إبراهيم التيمي، حدثني ابي، قال: خطبنا علي رضي الله عنه على منبر من آجر وعليه سيف فيه صحيفة معلقة، فقال:" والله ما عندنا من كتاب يقرا إلا كتاب الله وما في هذه الصحيفة فنشرها فإذا فيها اسنان الإبل وإذا فيها المدينة حرم من عير إلى كذا فمن احدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا وإذا فيه ذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا وإذا فيها من والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا".(موقوف) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibrahim At Taimi's father: `Ali addressed us while he was standing on a brick pulpit and carrying a sword from which was hanging a scroll He said "By Allah, we have no book to read except Allah's Book and whatever is on this scroll," And then he unrolled it, and behold, in it was written what sort of camels were to be given as blood money, and there was also written in it: 'Medina is a sanctuary form 'Air (mountain) to such and such place so whoever innovates in it an heresy or commits a sin therein, he will incur the curse of Allah, the angels, and all the people and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'The asylum (pledge of protection) granted by any Muslims is one and the same, (even a Muslim of the lowest status is to be secured and respected by all the other Muslims, and whoever betrays a Muslim in this respect (by violating the pledge) will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'Whoever (freed slave) befriends (takes as masters) other than his real masters (manumitters) without their permission will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds. ' (See Hadith No. 94, Vol. 3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 403


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7301
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا مسلم، عن مسروق، قال: قالت عائشة رضي الله عنها: صنع النبي صلى الله عليه وسلم شيئا ترخص فيه وتنزه عنه قوم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه، فوالله إني اعلمهم بالله واشدهم له خشية".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا تَرَخَّصَ فِيهِ وَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ، فَوَاللَّهِ إِنِّي أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، واللہ! میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: The Prophet did something as it was allowed from the religious point of view but some people refrained from it. When the Prophet heard of that, he, after glorifying and praising Allah, said, "Why do some people refrain from doing something which I do? By Allah, I know Allah more than they."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 404


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7302
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا وكيع، اخبرنا نافع بن عمر، عن ابن ابي مليكة، قال:" كاد الخيران ان يهلكا ابو بكر، وعمر لما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم وفد بني تميم اشار احدهما بالاقرع بن حابس التميمي الحنظلي اخي بني مجاشع واشار الآخر بغيره، فقال ابو بكر لعمر: إنما اردت خلافي، فقال عمر: ما اردت خلافك، فارتفعت اصواتهما عند النبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت: يايها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي إلى قوله عظيم سورة الحجرات آية 2- 3"، قال ابن ابي مليكة: قال ابن الزبير: فكان عمر بعد ولم يذكر ذلك عن ابيه يعني ابا بكر إذا حدث النبي صلى الله عليه وسلم بحديث حدثه كاخي السرار لم يسمعه حتى يستفهمه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ:" كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ: إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمٌ سورة الحجرات آية 2- 3"، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ.
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دو بہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آواز بلند ہو گئی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم‏» اے لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «عظيم‏» تک۔ ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے نانا کا ذکر کیا وہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: Once the two righteous men, i.e., Abu Bakr and `Umar were on the verge of destruction (and that was because): When the delegate of Bani Tamim came to the Prophet, one of them (either Abu Bakr or `Umar) recommended Al-Aqra' bin H`Abis at-Tamimi Al-Hanzali, the brother of Bani Majashi (to be appointed as their chief), while the other recommended somebody else. Abu Bakr said to `Umar, "You intended only to oppose me." `Umar said, "I did not intend to oppose you!" Then their voices grew louder in front of the Prophet whereupon there was revealed: 'O you who believe! Do not raise your voices above the voice of the Prophet..a great reward.' (49.2-3) Ibn Az-Zubair said, 'Thence forward when `Umar talked to the Prophet, he would talk like one who whispered a secret and would even fail to make the Prophet hear him, in which case the Prophet would ask him (to repeat his words).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 405


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7303
Save to word مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل حدثني مالك عن هشام بن عروة عن ابيه عن عائشة ام المؤمنين ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه: «مروا ابا بكر يصلي بالناس» . قالت عائشة قلت إن ابا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل. فقال: «مروا ابا بكر فليصل بالناس» . فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي إن ابا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل بالناس، ففعلت حفصة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكن لانتن صواحب يوسف، مروا ابا بكر فليصل للناس» . قالت حفصة لعائشة ما كنت لاصيب منك خيرا.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» . قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ. فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» . فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» . قَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ نے کہا کہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو شدت بکاء کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ تم یوسف پیغمبر کی ساتھ والیاں ہو؟ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کچھ بھلائی نہیں دیکھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: (the mother of believers) Allah's Apostle during his fatal ailment said, "Order Abu Bakr to lead the people in prayer." I said, "If Abu Bakr stood at your place (in prayers, the people will not be able to hear him because of his weeping, so order `Umar to lead the people in prayer." He again said, "Order Abu Bakr to lead the people in prayer " Then I said to Hafsa, "Will you say (to the Prophet), 'If Abu Bakr stood at your place, the people will not be able to hear him be cause of his weeping, so order `Umar to lead the people in prayer?" Hafsa did so, whereupon Allah's Apostle said, "You are like the companions of Joseph (See Qur'an, 12:30-32). Order Abu Bakr to lead the people in prayer." Hafsa then said to me, "I have never received any good from you!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 406


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7304
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن ابي ذئب، حدثنا الزهري، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: جاء عويمر العجلاني إلىعاصم بن عدي، فقال: ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا فيقتله اتقتلونه به؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله؟ فكره النبي صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، فرجع عاصم، فاخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم: كره المسائل، فقال عويمر: والله لآتين النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء وقد انزل الله تعالى القرآن خلف عاصم، فقال له: قد انزل الله فيكم قرآنا، فدعا بهما، فتقدما فتلاعنا، ثم قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها، ففارقها، ولم يامره النبي صلى الله عليه وسلم بفراقها، فجرت السنة في المتلاعنين، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" انظروها فإن جاءت به احمر قصيرا مثل وحرة، فلا اراه إلا قد كذب، وإن جاءت به اسحم اعين ذا اليتين، فلا احسب إلا قد صدق عليها، فجاءت به على الامر المكروه".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: جَاءَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَىعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ؟ فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، فَرَجَعَ عَاصِمٌ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَرِهَ الْمَسَائِلَ، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ، فَقَالَ لَهُ: قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكُمْ قُرْآنًا، فَدَعَا بِهِمَا، فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا، ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَفَارَقَهَا، وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا، فَجَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْظُرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ كَذَبَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْأَمْرِ الْمَكْرُوهِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ دیجئیے۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر رضی اللہ عنہ بولے کہ واللہ! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: 'Uwaimir Al-`Ajlani came to `Asim bin `Adi and said, "If a man found another man with his wife and killed him, would you sentence the husband to death (in Qisas,) i.e., equality in punishment)? O `Asim! Please ask Allah's Apostle about this matter on my behalf." `Asim asked the Prophet but the Prophet disliked the question and disapproved of it. `Asim returned and informed 'Uwaimir that the Prophet disliked that type of question. 'Uwaimir said, "By Allah, I will go (personally) to the Prophet." 'Uwaimir came to the Prophet when Allah had already revealed Qur'anic Verses (in that respect), after `Asim had left (the Prophet ). So the Prophet said to 'Uwaimir, "Allah has revealed Qur'anic Verses regarding you and your wife." The Prophet then called for them, and they came and carried out the order of Lian. Then 'Uwaimir said, "O Allah's Apostle! Now if I kept her with me, I would be accused of telling a lie." So 'Uwaimir divorced her although the Prophet did not order him to do so. Later on this practice of divorcing became the tradition of couples involved in a case of Li'an. The Prophet said (to the people). "Wait for her! If she delivers a red short (small) child like a Wahra (a short red animal). then I will be of the opinion that he ('Uwaimir) has told a lie but if she delivered a black big-eyed one with big buttocks, then I will be of the opinion that he has told the truth about her." 'Ultimately she gave birth to a child that proved the accusation. (See Hadith No. 269, Vol. 6)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 407


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7305
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس النصري، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من ذلك، فدخلت على مالك فسالته؟، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستاذنون، قال: نعم، فدخلوا، فسلموا وجلسوا فقال: هل لك في علي وعباس فاذن لهما، قال العباس:" يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين الظالم استبا، فقال الرهط عثمان واصحابه: يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال: اتئدوا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة، يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك: قالا: نعم، قال عمر: فإني محدثكم عن هذا الامر إن الله كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشيء لم يعطه احدا غيره فإن الله يقول: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم وقد اعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال وكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال ثم ياخذ ما بقي، فيجعله مجعل مال الله، فعمل النبي صلى الله عليه وسلم بذلك حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك؟، فقالوا: نعم ثم قال لعلي وعباس: انشدكما الله هل تعلمان ذلك؟، قالا: نعم، ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها ابو بكر، فعمل فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتما حينئذ واقبل على علي، وعباس تزعمان ان ابا بكر فيها كذا والله يعلم انه فيها صادق بار راشد تابع للحق ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، فقبضتها سنتين اعمل فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر ثم جئتماني وكلمتكما على كلمة واحدة وامركما جميع جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها ابو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها وإلا فلا تكلماني فيها فقلتما ادفعها إلينا بذلك، فدفعتها إليكما بذلك انشدكم بالله هل دفعتها إليهما بذلك؟، قال الرهط: نعم، فاقبل على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك؟، قالا: نعم، قال: افتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما عنها، فادفعاها إلي فانا اكفيكماها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قال: أخبرني مالك بن أوس النصري، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذِكْرًا مِنْ ذَلِكَ، فَدَخَلْتُ عَلَى مَالِكٍ فَسَأَلْتُهُ؟، فَقَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ، قَالَ: نَعَمْ، فَدَخَلُوا، فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا، قَالَ الْعَبَّاسُ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا، فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ: اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ: قَالَا: نَعَمْ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ: أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟، قَالَ الرَّهْطُ: نَعَمْ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا، فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم‏» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Malik bin Aus An-Nasri: I proceeded till I entered upon `Umar (and while I was sitting there), his gate-keeper Yarfa came to him and said, " `Uthman, `Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa`d ask your permission to come in." `Umar allowed them. So they entered, greeted, and sat down. (After a while the gatekeeper came) and said, "Shall I admit `Ali and `Abbas?'' `Umar allowed them to enter. Al-`Abbas said "O Chief of the believers! Judge between me and the oppressor (`Ali)." Then there was a dispute (regarding the property of Bani Nadir) between them (`Abbas and `Ali). `Uthman and his companions said, "O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." `Umar said, "Be patient! beseech you by Allah, with Whose permission the Heaven and the Earth Exist! Do you know that Allah's Apostle said, 'Our property is not to be inherited, and whatever we leave is to be given in charity,' and by this Allah's Apostle meant himself?" On that the group said, "He verily said so." `Umar then faced `Ali and `Abbas and said, "I beseech you both by Allah, do you both know that Allah's Apostle said so?" They both replied, "Yes". `Umar then said, "Now I am talking to you about this matter (in detail) . Allah favored Allah's Apostle with some of this wealth which He did not give to anybody else, as Allah said: 'What Allah bestowed as Fai (Booty on His Apostle for which you made no expedition... ' (59.6) So that property was totally meant for Allah's Apostle, yet he did not collect it and ignore you, nor did he withhold it with your exclusion, but he gave it to you and distributed it among you till this much of it was left behind, and the Prophet, used to spend of this as the yearly expenditures of his family and then take what remained of it and spent it as he did with (other) Allah's wealth. The Prophet did so during all his lifetime, and I beseech you by Allah, do you know that?" They replied, "Yes." `Umar then addressed `Ali and `Abbas, saying, "I beseech you both by Allah, do you know that?" Both of them replied, "Yes." `Umar added, "Then Allah took His Apostle unto Him. Abu Bakr then said 'I am the successor of Allah's Apostle' and took over all the Prophet's property and disposed of it in the same way as Allah's Apostle used to do, and you were present then." Then he turned to `Ali and `Abbas and said, "You both claim that Abu Bakr did so-and-so in managing the property, but Allah knows that Abu Bakr was honest, righteous, intelligent, and a follower of what is right in managing it. Then Allah took Abu Bakr unto Him, 'I said: I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I took over the property for two years and managed it in the same way as Allah's Apostle, and Abu Bakr used to do. Then you both (`Ali and `Abbas) came to me and asked for the same thing! (O `Abbas! You came to me to ask me for your share from nephew's property; and this (`Ali) came to me asking for his wives share from her father's property, and I said to you both, 'If you wish, I will place it in your custody on condition that you both will manage it in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have been doing since I took charge of managing it; otherwise, do not speak to me anymore about it.' Then you both said, 'Give it to us on that (condition).' So I gave it to you on that condition. Now I beseech you by Allah, did I not give it to them on that condition?" The group (whom he had been addressing) replied, "Yes." `Umar then addressed `Abbas and `Ali saying, "I beseech you both by Allah, didn't I give you all that property on that condition?" They said, "Yes." `Umar then said, "Are you now seeking a verdict from me other than that? By Him with Whose Permission the Heaven and the Earth exists I will not give any verdict other than that till the Hour is established; and if you both are unable to manage this property, then you can hand it back to me, and I will be sufficient for it on your behalf." (See, Hadith No. 326, Vol. 4)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 408


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.