(5) Chapter. What is disliked of going deeply into and arguing about (religious) knowledge, and exaggerating in matter of religion, and of inventing heresies.
(موقوف) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثني إبراهيم التيمي، حدثني ابي، قال: خطبنا علي رضي الله عنه على منبر من آجر وعليه سيف فيه صحيفة معلقة، فقال:" والله ما عندنا من كتاب يقرا إلا كتاب الله وما في هذه الصحيفة فنشرها فإذا فيها اسنان الإبل وإذا فيها المدينة حرم من عير إلى كذا فمن احدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا وإذا فيه ذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا وإذا فيها من والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا".(موقوف) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
Narrated Ibrahim At Taimi's father: `Ali addressed us while he was standing on a brick pulpit and carrying a sword from which was hanging a scroll He said "By Allah, we have no book to read except Allah's Book and whatever is on this scroll," And then he unrolled it, and behold, in it was written what sort of camels were to be given as blood money, and there was also written in it: 'Medina is a sanctuary form 'Air (mountain) to such and such place so whoever innovates in it an heresy or commits a sin therein, he will incur the curse of Allah, the angels, and all the people and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'The asylum (pledge of protection) granted by any Muslims is one and the same, (even a Muslim of the lowest status is to be secured and respected by all the other Muslims, and whoever betrays a Muslim in this respect (by violating the pledge) will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'Whoever (freed slave) befriends (takes as masters) other than his real masters (manumitters) without their permission will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds. ' (See Hadith No. 94, Vol. 3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 403
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7300
حدیث حاشیہ: باب کا مطلب یہیں سے نکلا اور گو حدیث میں اس جگہ کی قید ہے مگر بدعت کا حکم ہر جگہ ایک ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ کے سوا اور کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ نے لغت کی اور جو کوئی زمین کا نشان چرا لے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص کسی بدعتی کو اپنے یہاں ٹھکانا دے اس پر اللہ نے لعنت کی۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شیعہ لوگ جو بہت سی کتابیں جناب امیر کی منسوب کرتے ہیں جیسے صحیفہ کاملہ وغیرہ یا جناب امیر کا کوئی اور قرآن اس مروج قرآن کے سوا جانتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ اسی طرح سورہ علی جو بعض شیعوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔ لعنة اللہ علی واضعه۔ البتہ بعض روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جناب امیر کے قرآن شریف کی تربیت دوسری طرح پر تھی یعنی باعتبار تاریخ نزول کے اور ایک تابعی کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن مجید موجودہ ہوتا تو ہم کو بہت فائدے حاصل ہوتے یعنی سورتوں کی تقدیم وتاخیر معلوم ہو جاتی۔ باقی قرآن یہی تھا جواب مروج ہے۔ اس سے زیادہ اس میں کوئی سورت نہ تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7300
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7300
حدیث حاشیہ: دین میں غلو کی کئی صورتیں ہیں جن میں بدعت کی اشاعت یعنی بدعت پھیلا نا اور اسے رواج دینا بھی ہے چنانچہ عنوان میں بدعات کی ترویج و اشاعت کا بھی ذکر ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جس نے حرم مدینہ میں بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو جگہ دی اس پر اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس صحیفے میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی تعظیم کے لیے جانور ذبح کرے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ جو کوئی زمین کے نشانات تبدیل کرے وہ بھی ملعون ہے اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرتا ہے۔ اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے بہر حال اس میں بدعت کی اشاعت اور بدعتی کو اپنے ہاں جگہ دسینے کی گندگی اور برائی کا بیان ہے جو دین میں غلو اور حد سے گزر جانے کی ایک صورت ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (فتح الباري: 341/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7300