(5) Chapter. What is disliked of going deeply into and arguing about (religious) knowledge, and exaggerating in matter of religion, and of inventing heresies.
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا وكيع، اخبرنا نافع بن عمر، عن ابن ابي مليكة، قال:" كاد الخيران ان يهلكا ابو بكر، وعمر لما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم وفد بني تميم اشار احدهما بالاقرع بن حابس التميمي الحنظلي اخي بني مجاشع واشار الآخر بغيره، فقال ابو بكر لعمر: إنما اردت خلافي، فقال عمر: ما اردت خلافك، فارتفعت اصواتهما عند النبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت: يايها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي إلى قوله عظيم سورة الحجرات آية 2- 3"، قال ابن ابي مليكة: قال ابن الزبير: فكان عمر بعد ولم يذكر ذلك عن ابيه يعني ابا بكر إذا حدث النبي صلى الله عليه وسلم بحديث حدثه كاخي السرار لم يسمعه حتى يستفهمه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ:" كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ: إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمٌ سورة الحجرات آية 2- 3"، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ.
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دو بہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آواز بلند ہو گئی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم»”اے لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو۔“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «عظيم» تک۔ ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے نانا کا ذکر کیا وہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: Once the two righteous men, i.e., Abu Bakr and `Umar were on the verge of destruction (and that was because): When the delegate of Bani Tamim came to the Prophet, one of them (either Abu Bakr or `Umar) recommended Al-Aqra' bin H`Abis at-Tamimi Al-Hanzali, the brother of Bani Majashi (to be appointed as their chief), while the other recommended somebody else. Abu Bakr said to `Umar, "You intended only to oppose me." `Umar said, "I did not intend to oppose you!" Then their voices grew louder in front of the Prophet whereupon there was revealed: 'O you who believe! Do not raise your voices above the voice of the Prophet..a great reward.' (49.2-3) Ibn Az-Zubair said, 'Thence forward when `Umar talked to the Prophet, he would talk like one who whispered a secret and would even fail to make the Prophet hear him, in which case the Prophet would ask him (to repeat his words).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 405
قدم عليه ركب بني تميم فأشار أحدهما بالأقرع بن حابس أخي بني مجاشع وأشار الآخر برجل آخر قال نافع لا أحفظ اسمه فقال أبو بكر لعمر ما أردت إلا خلافي قال ما أردت خلافك فارتفعت أصواتهما في ذلك فأنزل الله يأيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم الآية قال ابن الزبير ف
قدم على النبي وفد بني تميم أشار أحدهما بالأقرع بن حابس التميمي الحنظلي أخي بني مجاشع وأشار الآخر بغيره فقال أبو بكر لعمر إنما أردت خلافي فقال عمر ما أردت خلافك فارتفعت أصواتهما عند النبي صلى الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7302
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مطابقت باب سے یہ ہے کہ اس میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے کیونکہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم دونوں تولیت کے باب میں میں جھگڑا کر رہے تھے یعنی کس کو حاکم بنایا جائے، یہ ایک علم کی بات تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7302
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کیا ہوا عنوان کئی اجزا پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک ”بلاوجہ جھگڑا کرنا“ ہے چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث میں مذکور جھگڑا اور اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرع بن حابس کو امیر بنانے کا مشورہ دیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد کو امیر بنایا جائے۔ اس دوران میں ان دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو فرشتہ وحی خدمت میں آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیات نازل ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی کو از خود مشورہ دینے کی اجازت نہیں اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے گفتگو کرنا ہی درست ہے۔ بہر حال یہ حدیث اپنے عنوان سے اس طرح مطابقت رکھتی ہے کہ اس میں تنازع کا ذکر ہے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبد بن زراہ میں سے کس کو امیر بنایا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7302
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4845
4845. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے، یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ قصہ یوں ہے کہ بنو تمیم کا ایک وفد آپ ﷺ کے پاس آیا، ان میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی سرداری کا مشورہ دیا جو بنو مجاشع سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے کا مشورہ دیا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا: تمہارا مقصد صرف میری مخالفت ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس معاملے میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَرْفَعُوٓا۟ أَصْوَٰتَكُمْ۔۔۔﴾ سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا: اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر ؓ اتنی آہستہ بات کرتے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی، لیکن انہوں نے یہ بات اپنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4845]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 9ہجری میں بنو تمیم کا ایک وفد آیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقررفرما دیں۔ ابھی آپ خاموش تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرع بن حابس کا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قعقاع بن معبد کے امیر بنانے کا مشورہ دیا۔ اس دوران میں دونوں حضرات کی آوازیں بلند ہوگئیں تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ آیت کے نازل ہونے کےبعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو گویا ایک راز داں کی طرح بات کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سےپوچھنے کی ضرورت پڑتی۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنه، حدیث: 7302) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ ایک رازداں کی طرح آپ سے گفتگو کروں گا۔ (فتح الباري: 752/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4845