بیماری اور عذر کے وقت فرض نماز کی ادائیگی کے ابواب کا مجموعہ 634. (401) بَابُ النَّائِمِ عَنِ الصَّلَاةِ وَالنَّاسِي لَهَا، لَا يَسْتَيْقِظُ وَلَا يُدْرِكُهَا إِلَّا بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ نماز سے سو یا رہ جانے والا اور اُسے بھولنے والا نماز کا وقت ختم ہونے کے بعد بیدار ہو یا اُسے پالے تو اُس کا بیان
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ صبح سے پہلے سحری کا وقت ہوا تو ہم آرام کے لئے لیٹ گئے، اور مسافر کے لئے اس وقت سے زیادہ میٹھی نیند والا وقت اور کوئی نہیں (اس لئے ہم گہری نیند سوئے رہے) - پھر ہمیں سورج کی حرارت نے ہی بیدار کیا، سب سے پہلے فلاں شخص بیدار ہوا، پھر فلاں، ابورجاء اُن کے نام بتایا کرتے تھے، اور عوف بھی اُن کے نام بیان کرتے تھے، پھر چوتھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے ـ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگاتے نہیں تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہو جاتے، کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں نیند میں کیا واقعہ پیش آ رہا ہو (کوئی حُکم وغیرہ نہ دیا جا رہا ہو) ـ پھر جب سیدنا عمرر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور اُنہوں نے لوگوں کی پریشانی دیکھی، اور وہ بڑے بلند آواز مضبوط و توانا آدمی تھے، تو اُنہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا۔ پھر وہ مسلسل بلند آواز سے تکبیر کہتے رہے حتیٰ کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے تو صحابہ رضی اﷲ عنہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پریشانی سے آگاہ کیا (کہ ہماری نماز رہ گئی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نقصان نہیں، یا کوئی پریشانی کی بات نہیں، تم کوچ کرو“ لہٰذا صحابہ کرام نے (وہاں سے کوچ کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور تک چلے، پھر سواری سے اُترے اور پانی منگوا کر وضو کیا، پھر اذان کہلائی اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|