جماع أَبْوَابِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ موزوں پر مسح کرنے کے ابواب کا مجموعہ 148. (147) بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ لَابِسَ أَحَدِ الْخُفَّيْنِ قَبْلَ غَسْلِ كِلَا الرِّجْلَيْنِ، إِذَا لَبِسَ الْخُفَّ الْآخَرَ بَعْدَ غَسْلِ الرِّجْلِ الْأُخْرَى غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ إِذَا أَحْدَثَ، اس بات کی دلیل کا بیان کہ دونوں پاؤں دھونے سے پہلے ایک موزہ پہننے والا شخص جب دوسرا موزہ پاؤں دھونے کے بعد پہنے تو وضو ٹو ٹنے کے بعد اس کے لیے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے
کیونکہ اس نے ایک موزه طہارت مکمل ہونے سے پہلے پہنا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت موزوں پر مسح کرنے کی رُخصت دی ہے جب اُس نے انہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہو، اس باب میں ہم نے جس شخص کی حالت بیان کی ہے وہ بغیر وضو (مکمّل کیے) ایک موزہ پہننے والا شخص ہے کیونکہ اُس نے ایک موزہ پہنتے وقت ایک پاؤں دھویا ہے دونوں پاؤں نہیں دھوئے۔
حضرت زربن حبیش رحمه اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کی کہ علم حاصل کرنے کےلیے حاضر ہوا ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، ”جو شخص بھی حصول علم کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو فرشتے اُس کی طلب و جستجو پر رضا مندی اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔“ میں نے عرض کی کہ میں آپ سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں، ہم اس لشکر میں شامل تھے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوے کے لیے) بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم اپنے موزوں پر مسح کرلیں، جبکہ اُنہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہو، تین (دن رات) جب ہم سفر میں ہوں اور ایک رات (دن) جب ہم مقیم ہوں۔ اور ہم اُنہیں پیشاب پاخانے کی وجہ سے نہ اتار دیں، صرف (غسل) جنابت کی وجہ سے اُنہیں اتاریں، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، بیشک مغرب کی جانب توبہ کے لیے ایک دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی مسافت ستّر سال ہے وہ (دروازہ) بند نہیں ہوگا، حتیٰ کہ سورج مغرب کی جانب سے، دروازے کی جہت میں طلوع ہوجائے گا۔ اما م ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرزاق کی حدیث امام مزنی کو بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے کیونکہ امام شافعی رحمه اللہ کی اس سے قوی دلیل اور کوئی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
|