كِتَابُ الْفَرَائِضِ کتاب: ترکے کی تقسیم کے بیان میں 9. بَابُ مِيرَاثِ الْكَلَالَةِ کلالہ کی میراث کا بیان
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کلالے کے متعلق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافی ہے تجھ کو وہ آیت جو گرمی میں اتری ہے، سورۂ نساء کے آخر میں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 567، 1617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1666، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2091، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4537، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 789، 6648، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1014، 2726، 3363، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5144، وأحمد فى «مسنده» برقم: 179، والحميدي فى «مسنده» برقم: 10، 11، 29، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ کلالہ دو قسم کا ہے، ایک تو وہ آیت جو سورۂ نساء کے شروع میں ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ”اگر ایک شخص مر جائے کلالہ یا کوئی عورت مر جائے کلالہ اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو (اخیانی) تو ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے تہائی میں۔“ یہ وہ کلالہ ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اس کی اولاد ہو، کیونکہ اس وقت تک اخیانی بھائی بہن وارث نہیں ہوتے تھے۔ دوسری وہ آیت جو سورۂ نساء کے آخر میں ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ”پوچھتے ہیں تجھ سے کلالے (کی میراث) کے متعلق، کہہ دے: تو اللہ تم کو حکم دیتا ہے کلالے میں، اگر کوئی شخص مر جائے اس کی اولاد نہ ہو اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا متروکہ ملے گا، اگر بہن مر جائے تو وہ بھائی اس کے کل ترکے کا وارث ہوتا ہے جبکہ اس بہن کی اولاد نہ ہو، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملیں گے، اگر بھائی بہن ملے جلے ہوں تو مرد کو دوہرا حصّہ اور عورت کو ایک حصّہ ملے گا، اللہ تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ، اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔“ یہ وہ کلالہ ہے جس میں بھائی بہن عصبہ ہوجاتے ہیں، جب میّت کا بیٹا نہ ہو تو وہ داداکے ساتھ وارث ہوں گے کلالے میں۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دادا بھائیوں کے ساتھ وارث ہوگا، اس لیے کہ وہ ان سے اولیٰ ہے، کیونکہ دادا بیٹے کے ساتھ بھی چھٹے حصّہ کا وارث ہوتا ہے برخلاف بھائی اور بہنوں کے، اور کیونکہ دادا بھائی کے برابر نہ ہوگا وہ میّت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی ایک چھٹا لیتا ہے، تو بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی کیوں نہ ملے گا، اس لیے کہ اخیانی بھائی بہن سگے بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی لیتے ہیں، اگر دادا بھی موجود ہو تو وہ اخیانی بھائی بہنوں کو محروم کردے گا، پھر وہ تہائی اپنے آپ لے لے گا، کیونکہ اسی نے ان کو محروم کیا ہے، اگر وہ نہ ہو تو اس تہائی کو اخیانی بھائی بہن لیتے، تو دادا نے وہ مال لیا جو سگے یا سوتیلے بھائی بہنوں کو نہیں مل سکتا تھا، بلکہ اخیانی بھائی بہنوں کا حق تھا، اور دادا ان سے اولیٰ تھا اس واسطے اس نے لے لیا، اور اخیانی بھائی بہن کو محروم کیا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: پھر ہم نے کسی ایسے شخص کو نہیں جانا جس نے اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک ان دونوں جدات (کے ساتھ ان) کے علاوہ (کسی اور جدہ) کو بھی وارث بنایا ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 7»
|