موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْفَرَائِضِ
کتاب: ترکے کی تقسیم کے بیان میں
9. بَابُ مِيرَاثِ الْكَلَالَةِ
کلالہ کی میراث کا بیان
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ کلالہ دو قسم کا ہے، ایک تو وہ آیت جو سورۂ نساء کے شروع میں ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ”اگر ایک شخص مر جائے کلالہ یا کوئی عورت مر جائے کلالہ اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو (اخیانی) تو ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے تہائی میں۔“ یہ وہ کلالہ ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اس کی اولاد ہو، کیونکہ اس وقت تک اخیانی بھائی بہن وارث نہیں ہوتے تھے۔ دوسری وہ آیت جو سورۂ نساء کے آخر میں ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ”پوچھتے ہیں تجھ سے کلالے (کی میراث) کے متعلق، کہہ دے: تو اللہ تم کو حکم دیتا ہے کلالے میں، اگر کوئی شخص مر جائے اس کی اولاد نہ ہو اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا متروکہ ملے گا، اگر بہن مر جائے تو وہ بھائی اس کے کل ترکے کا وارث ہوتا ہے جبکہ اس بہن کی اولاد نہ ہو، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملیں گے، اگر بھائی بہن ملے جلے ہوں تو مرد کو دوہرا حصّہ اور عورت کو ایک حصّہ ملے گا، اللہ تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ، اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔“ یہ وہ کلالہ ہے جس میں بھائی بہن عصبہ ہوجاتے ہیں، جب میّت کا بیٹا نہ ہو تو وہ داداکے ساتھ وارث ہوں گے کلالے میں۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 7»