كِتَابُ الْقِرَاضِ کتاب: قراض کے بیان میں 15. بَابُ جَامِعِ مَا جَاءَ فِي الْقِرَاضِ مضاربت کے مختلف مسائل کا بیان
قال مالك: في رجل اخذ من رجل مالا قراضا فعمل فيه، ثم ساله صاحب المال عن ماله، فقال: هو عندي وافر، فلما آخذه به، قال: قد هلك عندي منه كذا وكذا لمال يسميه، وإنما قلت لك ذلك لكي تتركه عندي، قال: لا ينتفع بإنكاره بعد إقراره انه عنده، ويؤخذ بإقراره على نفسه، إلا ان ياتي في هلاك ذلك المال بامر يعرف به قوله، فإن لم يات بامر معروف اخذ بإقراره، ولم ينفعه إنكاره. قال مالك: وكذلك ايضا لو قال: ربحت في المال كذا وكذا، فساله رب المال: ان يدفع إليه ماله وربحه، فقال: ما ربحت فيه شيئا؟ وما قلت ذلك إلا لان تقره في يدي، فذلك لا ينفعه، ويؤخذ بما اقر به، إلا ان ياتي بامر يعرف به قوله وصدقه، فلا يلزمه ذلك. قال مالك: في رجل دفع إلى رجل مالا قراضا فربح فيه ربحا، فقال العامل: قارضتك على ان لي الثلثين، وقال صاحب المال: قارضتك على ان لك الثلث، قال مالك: القول قول العامل، وعليه في ذلك، اليمين. إذا كان ما قال يشبه قراض مثله. وكان ذلك نحوا مما يتقارض عليه الناس. وإن جاء بامر يستنكر، ليس على مثله يتقارض الناس، لم يصدق ورد إلى قراض مثله. قال مالك: في رجل اعطى رجلا مائة دينار قراضا فاشترى بها سلعة. ثم ذهب ليدفع إلى رب السلعة المائة دينار. فوجدها قد سرقت. فقال رب المال: بع السلعة. فإن كان فيها فضل كان لي، وإن كان فيها نقصان كان عليك. لانك انت ضيعت. وقال المقارض: بل عليك وفاء حق هذا، إنما اشتريتها بمالك الذي اعطيتني، قال مالك: يلزم العامل المشتري اداء ثمنها إلى البائع، ويقال لصاحب المال القراض: إن شئت فاد المائة الدينار إلى المقارض، والسلعة بينكما. وتكون قراضا على ما كانت عليه المائة الاولى. وإن شئت فابرا من السلعة، فإن دفع المائة دينار إلى العامل كانت قراضا على سنة القراض الاول. وإن ابى كانت السلعة للعامل وكان عليه ثمنها. قال مالك: في المتقارضين إذا تفاصلا فبقي بيد العامل من المتاع الذي يعمل فيه خلق القربة او خلق الثوب او ما اشبه ذلك. قال مالك: كل شيء من ذلك كان تافها، لا خطب له، فهو للعامل. ولم اسمع احدا افتى برد ذلك. وإنما يرد، من ذلك الشيء الذي له ثمن، وإن كان شيئا له اسم مثل الدابة او الجمل او الشاذكونة. او اشباه ذلك مما له ثمن. فإني ارى ان يرد ما بقي عنده من هذا. إلا ان يتحلل صاحبه من ذلك. امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے اسباب خریدا اور رب المال نے کہا کہ اس کو بیچ ڈال، مضارب نے کہا کہ اس کو ابھی بیچنا مناسب نہیں ہے، تو اور تجارت پیشہ سے جو اس امر میں مہارت رکھتے ہوں پوچھیں گے، اگر وہ بیچنے کی رائے دیں گے تو بیچ ڈالیں گے، ورنہ انتظار کریں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے مالِ مضاربت میں تجارت شروع کی، پھر رب المال نے اپنا مال مانگا، اس نے کہا: میرے پاس پورا مال موجود ہے، جب وہ لینے گیا تو مضارب نے کہا: کچھ مال میرے پاس تلف ہو گیا، پہلے میں نے اس واسطے کہہ دیا تھا کہ تو اپنے مال کو میرے پاس رہنے دے، تو مضارب کے اس قول کا اعتبار نہ ہوگا، مگر جب وہ دلیل قائم کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اسی طرح اگر مضارب بولا: میں نے اتنا نفع کمایا ہے، جب مالک نے مال اور نفع طلب کیا تو کہنے لگا: نفع نہیں ہوا، اس کی بات کااعتبار نہ ہوگا جب تک دلیل نہ لائے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے نفع کمایا، پھر رب المال کہنے لگا کہ دو حصّے نفع کے میرے لیے ٹھرے تھے اور ایک حصّہ تیرے لیے، اور مضارب نے کہا: میرے لیے دو حصّے ٹھہرے تھے اور ایک حصّہ تیرے لیے، تو مضارب کا قول قسم سے قبول ہوگا، مگر جب دستور کے خلاف ہو تو رواج کے مطابق حکم ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زید نے عمرو کو سو دینار مضاربت کے طور پر دیئے، عمرو نے اس کے عوض میں اسباب خریدا، جب بائع کو دینے لگا تو معلوم ہوا وہ سو دینا چوری ہو گئے، اب رب المال کہتا ہے: تو اس مال کو بیچ، اگر اس میں نفع ہوا تو میرا ہے، اور نقصان ہوا تو تجھ پر ہے، کیونکہ تو نے میرا مال تلف کیا۔ مضارب کہتا ہے کہ تو اپنے پاس سے اس اسباب کی قیمت دے، کیونکہ میں نے اس کو تیرے مال کے بدلے میں خریدا ہے، تو مضارب کو حکم ہوگا اس اسباب کی قیمت بائع کو ادا کرے، اور رب المال سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو سو دینار مضارب کو پھر دے تاکہ مضاربت بحال رہے، نہیں تو اس اسباب سے تجھ کو کچھ تعلق نہ ہوگا، اگر رب المال نے سو دینار پھر دیئے تو مضاربت اپنے حال پر قائم رہے گی، ورنہ وہ اسباب مضارب کا ہو جائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب رب المال اور مضارب الگ ہو جائیں (یعنی معاملہ مضارت ختم ہو جائے) لیکن مضارب کے پاس مالِ مضاربت میں سے کوئی پھٹی پرانی مشک یا پھٹا پرانا کپڑا وغیرہ رہ جائے، اگر وہ شئے کم قیمت حقیر ہے تو مضارب کی ہی ہو جائے گی، اس کے پھیرنے کا حکم نہ ہوگا، اگر وہ شئے قیمت دار ہو جیسے کوئی جانور یا اُونٹ یاعمدہ کپڑا یمن کا، تو اس کا پھیرنا ضروری ہے، مگر جب رب المال سے معاف کرا لے۔ تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»
|