قال مالك: احسن ما سمعت في هذا، ان اللغو حلف الإنسان على الشيء يستيقن انه كذلك، ثم يوجد على غير ذلك فهو اللغو قَالَ مَالِك: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي هَذَا، أَنَّ اللَّغْوَ حَلِفُ الْإِنْسَانِ عَلَى الشَّيْءِ يَسْتَيْقِنُ أَنَّهُ كَذَلِكَ، ثُمَّ يُوجَدُ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ اللَّغْوُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قسم کی تین قسمیں ہیں: ایک ”لغو قسم“ وہ ہے کہ آدمی ایک بات کو سچ جان کر اس پر قسم کھائے، پھر اس کے خلاف نکلے۔
قال مالك: وعقد اليمين ان يحلف الرجل ان لا يبيع ثوبه بعشرة دنانير، ثم يبيعه بذلك او يحلف ليضربن غلامه، ثم لا يضربه ونحو هذا فهذا الذي يكفر صاحبه عن يمينه، وليس في اللغو كفارة قَالَ مَالِك: وَعَقْدُ الْيَمِينِ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَبِيعَ ثَوْبَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، ثُمَّ يَبِيعَهُ بِذَلِكَ أَوْ يَحْلِفَ لَيَضْرِبَنَّ غُلَامَهُ، ثُمَّ لَا يَضْرِبُهُ وَنَحْوَ هَذَا فَهَذَا الَّذِي يُكَفِّرُ صَاحِبُهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَلَيْسَ فِي اللَّغْوِ كَفَّارَةٌ
دوسرے ”منعقدہ قسم“ ہے جو آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر کھائے، مثلاً یوں کہے: قسم اللہ کی میں اپنا کپڑا دس دینار کو نہ بیچوں گا، پھر بیچ ڈالے یا قسم اللہ کی میں اس کے غلام کو ماروں گا، پھر اس کو نہ مارے۔ اس قسم پر کفارہ لازم آتا ہے۔
قال مالك: فاما الذي يحلف على الشيء وهو يعلم انه آثم، ويحلف على الكذب وهو يعلم، ليرضي به احدا، او ليعتذر به إلى معتذر إليه، او ليقطع به مالا فهذا اعظم من ان تكون فيه كفارةقَالَ مَالِك: فَأَمَّا الَّذِي يَحْلِفُ عَلَى الشَّيْءِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ آثِمٌ، وَيَحْلِفُ عَلَى الْكَذِبِ وَهُوَ يَعْلَمُ، لِيُرْضِيَ بِهِ أَحَدًا، أَوْ لِيَعْتَذِرَ بِهِ إِلَى مُعْتَذَرٍ إِلَيْهِ، أَوْ لِيَقْطَعَ بِهِ مَالًا فَهَذَا أَعْظَمُ مِنْ أَنْ تَكُونَ فِيهِ كَفَّارَةٌ
تیسرے ”غموس“ ہے کہ آدمی ایک کام کو جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا، باوجود اس کے قصداً جھوٹی قسم کھائے کہ ایسا ہوا کسی کے خوش کرنے یا عذر قبول کرانے کو، یا کسی کا مال مارنے کو، اس قسم میں اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا کفارہ دنیا میں نہیں ہو سکتا۔