كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ کتاب: صلاۃ اللیل کے بیان میں 3. بَابُ الْأَمْرِ بِالْوِتْرِ وتر کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں، سو جب صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے، جو اس کی نماز کو طاق بنادے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 472، 473، 990، 993، 995، 998، 1137، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 749، 751، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1072، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2426، 2482، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1668، 1671، 1672، 1688، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 437، 438، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1295، 1326، 1421، 1438، والترمذي فى «جامعه» برقم: 437، 461، 597،والدارمي فى «سننه» برقم: 1459، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1499، 1500، 1625، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1144، 1174، 1175، 1318، 1319، 1320، 1322، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4588، 4643، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2882، والحميدي فى «مسنده» برقم: 641، 642، 643، 644، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2623، شركة الحروف نمبر: 251، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 13»
حضرت عبداللہ بن محیریز سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی کنانہ سے جس کو مخدجی کہتے تھے، اس نے شام کے ایک شخص سے سنا جسکی کنیت ابومحمد ہے (انصاری صحابی ہیں) کہتے تھے کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا کہ میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور ابومحمد کے قول کو نقل کیا، انہوں نے کہا کہ ابومحمد نے جھوٹ کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو شخص ان کو پڑھے گا اور ان کو ہلکا جان کر نہ چھوڑے گا، تو اللہ عز و جل نے اس کے لیئے یہ عہد کر رکھا ہے کہ اس شخص کو جنت میں داخل کرے گا، اور جو شخص ان کو چھوڑ دے گا تو اللہ کے پاس اس کا کچھ عہد نہیں ہے، چاہے اس کو عذاب کرے چاہے جنت میں پہنچا دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 425، 1420، والدارمي فى «سننه» برقم: 1577، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1401، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1721،2261، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1731، 1732، 2417، وأحمد فى «مسنده» 10358، 23133، والحميدي فى «مسنده» 175،392، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 2690، 2723، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4575، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 6923، شركة الحروف نمبر: 252، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 14»
حضرت سعید بن یسار سے روایت ہے کہ میں رات کو سفر میں مکہ کی راہ میں سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ تھا، سعید کہتے ہیں کہ جب مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے اُونٹ سے اتر کر وتر پڑھا، پھر ان کو آگے بڑھ کر پا لیا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں تھا؟ میں نے کہا کہ مجھے صبح ہونے کا اندیشہ ہوا اس لئے میں نے اتر کر وتر پڑھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا؟ میں نے کہا کہ واہ! کیوں نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وتر اُونٹ پر پڑھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 999، 1095، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 700، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1704، 2412، 2413، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1687، 1688، 1689، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1399، والترمذي فى «جامعه» برقم: 472، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1631، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1200، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2246، 2247، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4607، 4618، شركة الحروف نمبر: 253، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 15»
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے بستر پر سونے کو آتے تو وتر پڑھ لیتے، اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخر رات میں تہجد کے بعد وتر پڑھتے تھے، اور حضرت سعید بن مسیّب نے کہا کہ میں تو جب اپنے بچھونے پر سونے کو آتا ہوں تو وتر پڑھ لیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4922، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 6770، وله شواهد من حديث عبد الله بن عمر بن الخطاب، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1421، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1688،1689،1690، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1202 م، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2882، 3474، شركة الحروف نمبر: 254، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 16»
امام مالک رحمہ اللہ کو یہ بات پہنچی کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ کیا وتر واجب ہے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان وتر ادا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 29/2، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 295/2، شركة الحروف نمبر: 254، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 17»
امام مالک رحمہ اللہ کو یہ بات پہنچی کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ جس شخص کو خوف ہو کہ اس کی آنکھ صبح تک نہیں کھلے گی تو وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لے، اور جو آخر شب میں جاگنے کی امید رکھے تو وہ وتر میں دیر کرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، شیخ سلیم ہلالی نے کہا ہے کہ اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔، شركة الحروف نمبر: 254، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 18»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستہ میں تھا اور آسمان پر اَبر چھایا ہوا تھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما صبح ہو جانے سے ڈرے۔ پس انہوں نے ایک رکعت وتر کی پڑھی، پھر اَبر کھل گیا تو دیکھا کہ رات ابھی باقی ہے، پس انہوں نے ایک رکعت اور پڑھ کر اس رکعت کو دوگانہ کیا، پھر اس کے بعد دو دو رکعتیں پڑھیں، پھر جب خوف ہوا صبح کا تب ایک رکعت وتر پڑھی۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، و أخرجه شافعي فى المسند برقم: 368/1، وفي الاُم: 141/1، 248/7، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» : 326/2، شركة الحروف نمبر: 255، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 19»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وتر کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر لیتے تھے، اور کچھ کام ہوتا تو ان کو (یعنی نافع کو) کہہ دیتے تھے پھر ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 991، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4866، 4885، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4670، 4672، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 1665، شركة الحروف نمبر: 256، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 20»
قال مالك: وليس على هذا العمل عندنا ولكن ادنى الوتر ثلاث ابنِ شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز کے بعد ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارا عمل اس پر نہیں ہے، بلکہ کم سے کم وتر کی تین رکعتیں ہیں۔ تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4861، 4862، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1670، 1671، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4642، 4643، 4644، 4645، 4646، 4647، 4651، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 6876، 37561، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 1751، 1752، 1753، والطبراني فى "الكبير"، 9423، شركة الحروف نمبر: 257، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 21»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص وتر پڑھ لے اوّل شب میں پھر سو کر اُٹھے اور نماز نفل پڑھنا چاہے تو دو دو رکعتیں مجھے پڑھنا پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1386، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4941، 5087، 5439، 6532، والبزار فى «مسنده» برقم: 5365، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4676، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 6773، 6775، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 1667، والطبراني فى "الكبير"، 13982، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8414، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1081، شركة الحروف نمبر: 258، فواد عبدالباقي نمبر: 7 - كِتَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ-ح: 22»
|