عن البراء بن عازب قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة فابى اهل مكة ان يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على ان يدخل يعني من العام المقبل يقيم بها ثلاثة ايام فلما كتبوا الكتاب كتبوا: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله. قالوا: لا نقر بها فلو نعلم انك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما منعناك ولكن انت محمد بن عبد الله فقال: «انا رسول الله وانا محمد بن عبد الله» . ثم قال لعلي بن ابي طالب: امح: رسول الله قال: لا والله لا امحوك ابدا فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس يحسن يكتب فكتب: هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله: لا يدخل مكة بالسلاح إلا السيف في القراب وان لا يخرج من اهلها باحد إن اراد ان يتبعه وان لا يمنع من اصحابه احدا إن اراد ان يقيم بها فلما دخلها ومضى الاجل اتوا عليا فقالوا: قل لصاحبك: اخرج عنا فقد مضى الاجل فخرج النبي صلى الله عليه وسلم عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَدْخُلَ يَعْنِي مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ يُقِيمُ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ. قَالُوا: لَا نُقِرُّ بِهَا فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا منعناك وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: «أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ» . ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: امْحُ: رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ فَكَتَبَ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ بِالسِّلَاحِ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ: اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو اہل مکہ نے انکار کر دیا کہ وہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں حتی کہ آپ نے ان سے اس بات پر صلح کی کہ آپ آئندہ سال آئیں گے، اور وہاں تین روز قیام کریں گے، جب انہوں نے تحریر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ لکھوانا چاہا کہ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصالحت کی، انہوں نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے، اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے، لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں رسول اللہ ہوں اور میں محمدبن عبداللہ ہوں۔ “ پھر آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”لفظ رسول اللہ مٹا دیں۔ “ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں آپ (کے نام) کو نہیں مٹاؤں گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلم ہاتھ میں لیا جبکہ آپ بہتر طور پر نہیں لکھ سکتے تھے، آپ نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے ہے جب آپ مکہ میں داخل ہوں گے تو تلوار نیام میں رکھیں گے اور مکہ والوں میں سے اگر کوئی آدمی آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر جائیں گے اور اگر آپ کے صحابہ میں سے کوئی قیام کرنا چاہے گا آپ اسے منع نہیں کریں گے، چنانچہ جب (اگلے سال) وہ (مکہ میں) آئے اور مدت قیام پوری ہو گئی تو وہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اپنے ساتھی سے کہو کہ مدت قیام پوری ہو چکی ہے لہذا یہاں سے چلے جائیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2699) ومسلم (90/ 1783)»