وعن ابي هريرة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له: ثمامة بن اثال سيد اهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ماذا عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي يا محمد خير إن نقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان الغد فقال له: «ما عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت. فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان بعد الغد فقال له: «ما عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلقوا ثمامة» فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله يا محمد والله ما كان على وجه الارض وجه ابغض إلي من وجهك فقد اصبح وجهك احب الوجوه كلها إلي والله ما كان من دين ابغض إلي من دينك فاصبح دينك احب الدين كله إلي ووالله ما كان من بلد ابغض إلي من بلدك فاصبح بلدك احب البلاد كلها إلي. وإن خيلك اخذتني وانا اريد العمرة فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وامره ان يعتمر فلما قدم مكة قال له قائل: اصبوت؟ فقال: لا ولكنى اسلمت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم والله لا ياتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى ياذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه مسلم واختصره البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عنْدي يَا مُحَمَّد خير إِن نقْتل تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتُ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ فَقَالَ لَهُ: «مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ كنتَ تريدُ المالَ فسَلْ تعط مِنْهُ مَا شِئْتَ. فَتَرَكَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ لَهُ: «مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطْلَقُوا ثُمَامَةَ» فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَن مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ وَوَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ. وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدَ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ: أَصَبَوْتَ؟ فَقَالَ: لَا وَلَكِنَّى أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ مُسلم وَاخْتَصَرَهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا، وہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی شخص کو پکڑ لائے جو کہ اہل یمامہ کا سردار تھا، انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”ثمامہ! تمہارا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! خیر ہے، اگر تم نے قتل کیا تو صاحبِ خون کو قتل کرو گے، اگر احسان کرو گے تو قدر دان پر احسان کرو گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مطالبہ کریں آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: میرا وہی خیال ہے جو میں نے تمہیں کہا تھا، اگر احسان کرو گے تو ایک قدر دان پر احسان کرو گے، اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے، جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہو مطالبہ کرو آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ثمامہ! تمہارا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: میرا وہی موقف ہے جو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اگر تم احسان کرو گے تو ایک قدر دان شخص پر احسان کرو گے اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر تمہیں مال چاہیے تو پھر جتنا چاہو مطالبہ کرو تمہیں دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو کھول دو َ“ وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے درختوں کی طرف گیا، غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! روئے زمین پر آپ کا چہرہ مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا جبکہ اب آپ کا چہرہ مجھے تمام چہروں سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے، اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اب آپ کا دین میرے نزدیک تمام ادیان سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ ناپسندیدہ تھا، اب آپ کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کر لیا جبکہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، آپ میرے بارے کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بشارت سنائی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم فرمایا، جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے انہیں کہا: کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے، اللہ کی قسم! جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت نہ فرما دیں یمامہ سے تمہارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔ مسلم، امام بخاری نے اسے مختصر بیان کیا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4372) و مسلم (1764/59)»