سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
1. باب السُّنَّةِ في الطَّلاَقِ:
طلاق کے صحیح طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 2299
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر: انه طلق امراته وهي حائض، فذكر ذلك عمر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "مره ان يراجعها ويمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء، امسك، وإن شاء طلق قبل ان يمس، فتلك العدة التي امر الله ان يطلق لها النساء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مُرْهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا وَيُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضُ، ثُمَّ تَطْهُرُ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ، أَمْسَكَ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے کہو کہ رجوع کر لیں اور اسے (بیوی کو) اس وقت تک روکے رکھیں کہ طہر شروع ہو جائے، پھر ایام آئیں اور پھر طہر شروع ہو، پھر اگر چاہیں تو اسے اپنے پاس برقرار رکھیں اور چاہیں تو طلاق دے دیں، صحبت و مجامعت کرنے سے پہلے، پس یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ (یعنی یہ وہ مدت ہے جس کا حکم ( «فطلقوهن لعدتهن») میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2308]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5251]، [مسلم 1471]، [أبوداؤد 2179]، [نسائي 3390]، [أبويعلی 5440]، [ابن حبان 4263]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 1573]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الطلاق
حدیث نمبر: 2300
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، اخبرنا سفيان، عن محمد بن عبد الرحمن، قال: سمعت سالما يذكر، عن ابن عمر: ان عمر، قال للنبي صلى الله عليه وسلم حين طلق ابن عمر امراته، فقال: "مره فليراجعها، ثم ليطلقها وهي طاهرة". قال ابو محمد: رواه ابن المبارك، ووكيع:"او حامل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا يَذْكُرُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ عُمَرَ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرَةٌ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعُ:"أَوْ حَامِلٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں کہو کہ اس عورت کو لوٹا لیں (یعنی طلاق سے رجوع کر لیں) پھر چاہیں تو حالت طہر میں اس کو طلاق دیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المبارک اور وکیع نے روایت کیا ہے کہ حالت حمل میں۔ (یعنی یا تو طہر کی حالت میں طلاق دیں، یا وہ عورت حاملہ ہو تب طلاق دیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2309]»
یہ حدیث صحیح ہے اور مصادر و مراجع وہی ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2298 سے 2300)
نکاح ایک عقد و بندھن ہے جس سے میاں بیوی میں الفت و محبت پیدا ہو کر نسل اور خاندان کی بناء پڑتی ہے، اگر اس بندھن میں توافق و تجانس نہ پیدا ہو سکے تو شریعت نے اس بندھن کو ختم کرنے اور توڑنے کے لئے مرد کی طرف سے طلاق اور عورت کی طرف سے خلع کے دو مناسب حل مشروع کئے ہیں، اور اس کے قواعد و ضوابط ہیں۔
لہٰذا طلاق کا مطلب ہوا اس پابندی کو ہٹا دینا جو نکاح کی وجہ سے میاں بیوی پر تھی، اور ظروف و احوال کے تحت اس کی مختلف صورتیں ہیں، جائز اور سنّت طریقہ یہ ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے: « ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ .....﴾ [البقره: 229] » یعنی طلاق دینا مقصود ہو تو طہر کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی گئی ہو ایک طلاق دی جائے۔
اور حیض کے ایام میں طلاق دینا حرام ہے جیسا کہ ان دونوں احادیث میں مذکور ہے، یا تین طلاق یکبارگی دی جائے یہ بھی مخالفِ کتاب و سنّت ہے، کبھی طلاق بدعی ہوتی ہے اور مکروہ بھی جیسے بلاسبب محض جنسی آسودگی کے لئے آدمی طلاق دے، اور کبھی طلاق واجب ہوتی ہے جب میاں بیوی میں مخالفت ہو اور میل ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے، اور کبھی طلاق مستحب و حلال و جائز ہوتی ہے جب بیوی بد چلن ہو، لیکن طلاق بذاتِ خود اچھی بات نہیں، میاں بیوی کو جہاں تک ہو سکے میل محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص و احترام سے رہنا چاہیے، اگر طلاق کی نوبت آ ہی جائے تو بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک کر کے طلاق دینی چاہیے تاکہ رجوع کے لئے راستہ کھلا رہے اور بعد میں ندامت و پشیمانی نہ اٹھانی پڑے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ جوش میں آ کر خلافِ سنّت تین طلاق داغ دیتے ہیں، پھر علماء کے پاس دوڑتے، چکر لگاتے ہیں کہ کسی طرح بیوی واپس مل جائے، اور پھر اس کے لئے بہت ہی گھناؤنا اور شرمناک طریقہ حلالہ کا اختیار کیا جاتا ہے، یہ سارے امور خلافِ شرع ہیں جن میں ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے۔
مذکور بالا حدیث میں حیض کی حالت میں دی گئی طلاق صحیح نہیں تھی اس لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم فرمایا۔
اب علمائے کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق شمار ہوگی یا نہیں، ائمۂ اربعہ اور اکثر فقہائے کرام کے نزدیک یہ طلاق گرچہ بدعی ہے لیکن شمار کی جائے گی اور رجوع کرنے کے بعد شوہر کو دو طلاق کا ہی اختیار ہوگا، اور ظاہر اہل الحدیث امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کثیر علماء و فقہاء کا قول یہ ہے کہ یہ طلاق شمار نہ کی جائے گی، اس لئے کہ یہ بدعی اور حرام ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کرنے کا حکم دیا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے، اور ایک روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے خود مروی ہے: «فردها على ولم ير شيئا.» یہ قول حیض میں دی جانے والی طلاق کے واقع نہ ہونے پر واضح و بین دلیل ہے۔
تفصیل کے لیے «زاد المعاد» اور «المحلى لابن حزم» ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.