سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کہو کہ اس عورت کو لوٹا لیں (یعنی طلاق سے رجوع کر لیں) پھر چاہیں تو حالت طہر میں اس کو طلاق دیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المبارک اور وکیع نے روایت کیا ہے کہ حالت حمل میں۔ (یعنی یا تو طہر کی حالت میں طلاق دیں، یا وہ عورت حاملہ ہو تب طلاق دیں)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2298 سے 2300) نکاح ایک عقد و بندھن ہے جس سے میاں بیوی میں الفت و محبت پیدا ہو کر نسل اور خاندان کی بناء پڑتی ہے، اگر اس بندھن میں توافق و تجانس نہ پیدا ہو سکے تو شریعت نے اس بندھن کو ختم کرنے اور توڑنے کے لئے مرد کی طرف سے طلاق اور عورت کی طرف سے خلع کے دو مناسب حل مشروع کئے ہیں، اور اس کے قواعد و ضوابط ہیں۔ لہٰذا طلاق کا مطلب ہوا اس پابندی کو ہٹا دینا جو نکاح کی وجہ سے میاں بیوی پر تھی، اور ظروف و احوال کے تحت اس کی مختلف صورتیں ہیں، جائز اور سنّت طریقہ یہ ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے: « ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ .....﴾[البقره: 229] » یعنی طلاق دینا مقصود ہو تو طہر کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی گئی ہو ایک طلاق دی جائے۔ اور حیض کے ایام میں طلاق دینا حرام ہے جیسا کہ ان دونوں احادیث میں مذکور ہے، یا تین طلاق یکبارگی دی جائے یہ بھی مخالفِ کتاب و سنّت ہے، کبھی طلاق بدعی ہوتی ہے اور مکروہ بھی جیسے بلاسبب محض جنسی آسودگی کے لئے آدمی طلاق دے، اور کبھی طلاق واجب ہوتی ہے جب میاں بیوی میں مخالفت ہو اور میل ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے، اور کبھی طلاق مستحب و حلال و جائز ہوتی ہے جب بیوی بد چلن ہو، لیکن طلاق بذاتِ خود اچھی بات نہیں، میاں بیوی کو جہاں تک ہو سکے میل محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص و احترام سے رہنا چاہیے، اگر طلاق کی نوبت آ ہی جائے تو بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک کر کے طلاق دینی چاہیے تاکہ رجوع کے لئے راستہ کھلا رہے اور بعد میں ندامت و پشیمانی نہ اٹھانی پڑے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ جوش میں آ کر خلافِ سنّت تین طلاق داغ دیتے ہیں، پھر علماء کے پاس دوڑتے، چکر لگاتے ہیں کہ کسی طرح بیوی واپس مل جائے، اور پھر اس کے لئے بہت ہی گھناؤنا اور شرمناک طریقہ حلالہ کا اختیار کیا جاتا ہے، یہ سارے امور خلافِ شرع ہیں جن میں ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے۔ مذکور بالا حدیث میں حیض کی حالت میں دی گئی طلاق صحیح نہیں تھی اس لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم فرمایا۔ اب علمائے کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق شمار ہوگی یا نہیں، ائمۂ اربعہ اور اکثر فقہائے کرام کے نزدیک یہ طلاق گرچہ بدعی ہے لیکن شمار کی جائے گی اور رجوع کرنے کے بعد شوہر کو دو طلاق کا ہی اختیار ہوگا، اور ظاہر اہل الحدیث امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کثیر علماء و فقہاء کا قول یہ ہے کہ یہ طلاق شمار نہ کی جائے گی، اس لئے کہ یہ بدعی اور حرام ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کرنے کا حکم دیا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے، اور ایک روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے خود مروی ہے: «فردها على ولم ير شيئا.» یہ قول حیض میں دی جانے والی طلاق کے واقع نہ ہونے پر واضح و بین دلیل ہے۔ تفصیل کے لیے «زاد المعاد» اور «المحلى لابن حزم» ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2309]» یہ حدیث صحیح ہے اور مصادر و مراجع وہی ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔