حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا الاسود بن شيبان، قال: حدثنا خالد بن سمير قال: حدثني بشير بن نهيك، قال: حدثنا بشير قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: زحم، قال: ”بل انت بشير“، فبينما انا اماشي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”يا ابن الخصاصية، ما اصبحت تنقم على الله؟ اصبحت تماشي رسول الله صلى الله عليه وسلم“، قلت: بابي وامي، ما انقم على الله شيئا، كل خير قد اصبت. فاتى على قبور المشركين فقال: ”لقد سبق هؤلاء خيرا كثيرا“، ثم اتى على قبور المسلمين فقال: ”لقد ادرك هؤلاء خيرا كثيرا“، فإذا رجل عليه سبتيتان يمشي بين القبور، فقال: ”يا صاحب السبتيتين، الق سبتيتك“، فخلع نعليه.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ نَهِيكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَشِيرٌ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: ”بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ“، فَبَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”يَا ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، مَا أَصْبَحْتَ تَنْقِمُ عَلَى اللهِ؟ أَصْبَحْتَ تُمَاشِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“، قُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي، مَا أَنْقِمُ عَلَى اللهِ شَيْئًا، كُلَّ خَيْرٍ قَدْ أَصَبْتُ. فَأَتَى عَلَى قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“، ثُمَّ أَتَى عَلَى قُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ سِبْتِيَّتَانِ يَمْشِي بَيْنَ الْقُبُورِ، فَقَالَ: ”يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَكَ“، فَخَلَعَ نَعْلَيْهِ.
سیدنا بشیر بن نہیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: زحم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تمہارا نام بشیر ہے۔“ اس دوران کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن الخصاصیہ کیا تمہیں اللہ کے کسی فیصلے پر ناگواری ہوئی ہے اور تم اللہ کے رسول کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو۔“ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اللہ کے کسی فیصلے پر کیسے ناگواری محسوس کروں گا جبکہ مجھے ہر خیر مل گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کی قبروں کے پاس آئے تو فرمایا: ”ان سے بہت زیادہ خیر چھوٹ گئی ہے۔“ پھر مسلمانوں کی قبروں کے پاس آئے اور فرمایا: ”ان لوگوں نے خیر کثیر کو پالیا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک آدمی سبتی جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سبتی جوتوں والے اپنے سبتی جوتے اتار دو۔“ چنانچہ اس نے اپنے جوتے اتار دیے۔
حدثنا سعيد بن منصور، قال: حدثنا عبيد الله بن إياد، عن ابيه قال: سمعت ليلى امراة بشير تحدث، عن بشير ابن الخصاصية، وكان اسمه زحما، فسماه النبي صلى الله عليه وسلم بشيرا.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ إِيَادٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ لَيْلَى امْرَأَةَ بَشِيرٍ تُحَدِّثُ، عَنْ بَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ، وَكَانَ اسْمُهُ زَحْمًا، فَسَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشِيرًا.
بشیر کی بیوی لیلیٰ بشیر ابن الخصاصیہ کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ ان کا نام زحم تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بشیر رکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 21956 و ابن سعد فى الطبقات: 120/6 و أبوزرعة الدمشقي فى تاريخه: 1842 و ابن معين فى تاريخه: 1598 - انظر الصحيحة: 2427»