حدثنا زكريا، قال: حدثنا ابواسامة، عن هشام، عن ابيه، قال: دخلت انا وعبد الله بن الزبير على اسماء، قبل قتل عبد الله بعشر ليال، واسماء وجعة، فقال لها عبد الله: كيف تجدينك؟ قالت: وجعة، قال: إني في الموت، فقالت: لعلك تشتهي موتي، فلذلك تتمناه؟ فلا تفعل، فوالله ما اشتهي ان اموت حتى ياتي علي احد طرفيك، او تقتل فاحتسبك، وإما ان تظفر فتقر عيني، فإياك ان تعرض عليك خطة، فلا توافقك، فتقبلها كراهية الموت، وإنما عنى ابن الزبير ليقتل فيحزنها ذلك.حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أَسْمَاءَ، قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللَّهِ بِعَشْرِ لَيَالٍ، وَأَسْمَاءُ وَجِعَةٌ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: وَجِعَةٌ، قَالَ: إِنِّي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ تَشْتَهِي مَوْتِي، فَلِذَلِكَ تَتَمَنَّاهُ؟ فَلا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ مَا أَشْتَهِي أَنْ أَمُوتَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ أَحَدُ طَرَفَيْكَ، أَوْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَظْفُرَ فَتَقَرَّ عَيْنِي، فَإِيَّاكَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْكَ خُطَّةٌ، فَلا تُوَافِقُكَ، فَتَقْبَلُهَا كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ، وَإِنَّمَا عَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ لِيُقْتَلَ فَيُحْزِنُهَا ذَلِكَ.
سیدنا عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے سے دس دن پہلے کی بات ہے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: آپ کی صحت کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے تکلیف ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی موت کی حالت میں ہوں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: شاید تم میری موت چاہتے ہو اس لیے اس کی تمنا کرتے ہو، تم ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم میں اس وقت تک موت نہیں چاہتی جب تک معاملہ ایک طرف نہ ہو جائے، یا تم قتل کر دیے جاؤ اور میں اس پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ سے ثواب لے لوں، یا تم کامیاب ہو جاؤ اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم اس بات سے بچنا کہ تم پر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس کی تم موافقت نہ کرتے ہو اور موت کے ڈر سے اسے قبول کر لو۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی وفات پہلے ہو جائے تاکہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا انہیں غم نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 37326 و أبونعيم فى الحلية: 56/2 و ابن عبدالبر فى الاستيعاب: 907/3 و ابن عساكر فى تاريخه: 22/69»
حدثنا احمد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب قال: اخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، انه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو موعوك، عليه قطيفة، فوضع يده عليه، فوجد حرارتها فوق القطيفة، فقال ابوسعيد: ما اشد حماك يا رسول الله، قال: ”إنا كذلك، يشتد علينا البلاء، ويضاعف لنا الاجر“، فقال: يا رسول الله، اي الناس اشد بلاء؟ قال: ”الانبياء، ثم الصالحون، وقد كان احدهم يبتلى بالفقر حتى ما يجد إلا العباءة يجوبها فيلبسها، ويبتلى بالقمل حتى يقتله، ولاحدهم كان اشد فرحا بالبلاء من احدكم بالعطاء.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَوْعُوكٌ، عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَوَجَدَ حَرَارَتَهَا فَوْقَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ أبوسَعِيدٍ: مَا أَشَدَّ حُمَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ”إِنَّا كَذَلِكَ، يَشْتَدُّ عَلَيْنَا الْبَلاءُ، وَيُضَاعَفُ لَنَا الأَجْرُ“، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاءً؟ قَالَ: ”الأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُونَ، وَقَدْ كَانَ أَحَدُهُمْ يُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ إِلا الْعَبَاءَةَ يَجُوبُهَا فَيَلْبَسُهَا، وَيُبْتَلَى بِالْقُمَّلِ حَتَّى يَقْتُلَهُ، وَلأَحَدُهُمْ كَانَ أَشَدَّ فَرَحًا بِالْبَلاءِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِالْعَطَاءِ.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھا تو اس کے اوپر سے بھی حرارت محسوس کی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس قدر شدید بخار ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پر آزمائشیں اسی طرح سخت آتی ہیں اور ہمارے لیے اجر بھی دگنا ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ سخت آزمائشیں کن لوگوں پر آتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء علیہم السلام پر، پھر نیک لوگوں پر۔ ان میں سے کسی کو اس قدر تنگ دستی کی آزمائش میں ڈالا جاتا کہ اس کے پاس ایک عبا کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا، جسے وہ پھاڑ کر پہن لیتے تھے۔ اور انہیں جوؤں اور پسوؤں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا یہاں تک وہ انہیں مار ڈالتیں۔ وہ آزمائش سے اتنے خوش ہوتے تھے جتنے تم عطیہ ملنے سے خوش ہوتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الفتن، باب الصبر على البلاء: 4024 - انظر الصحيحة: 144»