حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا سفيان، عن عمران بن ظبيان، عن ابي يحيى حكيم بن سعد قال: سمعت عليا يقول: لا تكونوا عجلا مذاييع بذرا، فإن من ورائكم بلاء مبرحا مملحا، وامورا متماحلة ردحا.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى حَكِيمِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: لاَ تَكُونُوا عُجُلاً مَذَايِيعَ بُذُرًا، فَإِنْ مِنْ وَرَائِكُمْ بَلاَءً مُبَرِّحًا مُمْلِحًا، وَأُمُورًا مُتَمَاحِلَةً رُدُحًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: تم جلد باز، باتوں کو پھیلانے والے اور راز فاش کرنے والے نہ بنو کیونکہ تمہارے بعد مصیبت میں ڈالنے والی آزمائش ہو گی اور فتنوں کا ایسا طویل دور ہو گا جو انسان کو دبا کر رکھ دے گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المزي فى تهذيب الكمال: 336/22 و رواه العقيلي فى الضعفاء مختصرًا: 13/4، قلت: و رواه ابن المبارك: 1438 و أبوداؤد فى الزهد: 146، عن ابن مسعود»
حدثنا محمد، قال: حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: حدثنا ابو مودود، عن زيد مولى قيس الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله عز وجل: ﴿ولا تلمزوا انفسكم﴾ [الحجرات: 11]، قال: لا يطعن بعضكم على بعض.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَوْدُودٍ، عَنْ زَيْدٍ مَوْلَى قَيْسٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ [الحجرات: 11]، قَالَ: لاَ يَطْعَنُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ارشاد باری تعالىٰ «﴿وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ﴾» کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے: ”تم ایک دوسرے پر طعن نہ کیا کرو۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى الدنيا فى ذم الغيبة: 47 و الحاكم: 463/2 و البيهقي فى شعب الإيمان: 6758»
حدثنا محمد، قال: حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، قال: اخبرنا داود، عن عامر قال: حدثني ابو جبيرة بن الضحاك قال: فينا نزلت، في بني سلمة: ﴿ولا تنابزوا بالالقاب﴾ [الحجرات: 11]، قال: قدم علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس منا رجل إلا له اسمان، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”يا فلان“، فيقولون: يا رسول الله، إنه يغضب منه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ، فِي بَنِي سَلِمَةَ: ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ﴾ [الحجرات: 11]، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلاَّ لَهُ اسْمَانِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”يَا فُلاَنُ“، فَيَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْهُ.
حضرت ابو جیرۃ بن ضحاک سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت «﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ﴾»”ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔“ ہمارے، یعنی بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہمارے ہر آدمی کے دو نام تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو بلاتے: ”اے فلاں۔“ تو وہ کہتے: اللہ کے رسول! وہ اس نام سے غصہ کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الأدب، حديث: 4962 - جامع الترمذي، ح: 3268 و ابن ماجه: 3741 - الصحيحة: 809»
حدثنا محمد قال: اخبرنا الفضل بن مقاتل، قال: حدثنا يزيد بن ابي حكيم، عن الحكم قال: سمعت عكرمة يقول: لا ادري ايهما جعل لصاحبه طعاما، ابن عباس او ابن عمه، فبينا الجارية تعمل بين ايديهم، إذ قال احدهم لها: يا زانية، فقال: مه، إن لم تحدك في الدنيا تحدك في الآخرة، قال: افرايت إن كان كذاك؟ قال: إن الله لا يحب الفاحش المتفحش. ابن عباس الذي قال: إن الله لا يحب الفاحش المتفحش.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ قَالَ: أخبرنا الْفَضْلُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: لاَ أَدْرِي أَيُّهُمَا جَعَلَ لِصَاحِبِهِ طَعَامًا، ابْنُ عَبَّاسٍ أَوِ ابْنُ عَمِّهِ، فَبَيْنَا الْجَارِيَةُ تَعْمَلُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، إِذْ قَالَ أَحَدُهُمْ لَهَا: يَا زَانِيَةُ، فَقَالَ: مَهْ، إِنْ لَمْ تَحُدَّكَ فِي الدُّنْيَا تَحُدُّكَ فِي الْآخِرَةِ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ كَذَاكَ؟ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ. ابْنُ عَبَّاسٍ الَّذِي قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ.
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس یا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے دوسرے کی دعوت کی۔ ایک لونڈی ان کی خدمت کر رہی تھی تو (اس کی غلطی پر) ان میں سے ایک نے اسے کہا: اے زانیہ! دوسرے ساتھی نے کہا: رک جاؤ! اگر وہ دنیا میں تجھ پر حد نافذ نہیں کرتی تو آخرت میں (اس بہتان کی) حد نافذ کرے گی۔ انہوں نے کہا: اگر وہ ایسی ہی ہو تو پھر تم کیا کہتے ہو؟ دوسرے ساتھی نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ بدزبان اور فحش گو کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدزبانی کرنے والے اور فحش گو کو ناپسند کرتا ہے۔
حدثنا محمد، قال: حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا محمد بن سابق، قال: حدثنا إسرائيل، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس المؤمن بالطعان، ولا اللعان، ولا الفاحش، ولا البذيء.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلاَ اللِّعَانِ، وَلاَ الْفَاحِشِ، وَلاَ الْبَذِيءِ.“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بہت زیادہ لعن طعن کرنے والا، بدکردار، اور فحش گو نہیں ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: جامع الترمذي، البر و الصلة، ح: 1977»