حدثنا محمد، قال: حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، قال: اخبرنا داود، عن عامر قال: حدثني ابو جبيرة بن الضحاك قال: فينا نزلت، في بني سلمة: ﴿ولا تنابزوا بالالقاب﴾ [الحجرات: 11]، قال: قدم علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس منا رجل إلا له اسمان، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”يا فلان“، فيقولون: يا رسول الله، إنه يغضب منه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ، فِي بَنِي سَلِمَةَ: ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ﴾ [الحجرات: 11]، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلاَّ لَهُ اسْمَانِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”يَا فُلاَنُ“، فَيَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْهُ.
حضرت ابو جیرۃ بن ضحاک سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت «﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ﴾»”ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔“ ہمارے، یعنی بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہمارے ہر آدمی کے دو نام تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو بلاتے: ”اے فلاں۔“ تو وہ کہتے: اللہ کے رسول! وہ اس نام سے غصہ کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الأدب، حديث: 4962 - جامع الترمذي، ح: 3268 و ابن ماجه: 3741 - الصحيحة: 809»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 330
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو ایسے نام یا لقب سے پکارنا ناجائز ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہے، البتہ ایسا لقب جو کسی کی پہچان بن گیا ہو تو دوسروں کو سمجھانے کے لیے یا کسی دوسرے شخص سے تمیز کرنے کے لیے اسے اس لقب سے پکارنا جائز ہے، جیسے اَعور، (کانا)اسود، (کالا)وغیرہ۔ (۲) ایک دوسرے کے برے القاب رکھنا حرام ہے۔ اسی طرح کسی کو برے لقب سے مشہور کرنا بھی ناجائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 330