حدثنا عمرو بن عباس، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق قال: سمعت عبد الرحمن بن ابزى قال: قال داود: ”كن لليتيم كالاب الرحيم، واعلم انك كما تزرع كذلك تحصد، ما اقبح الفقر بعد الغنى، واكثر من ذلك، او اقبح من ذلك، الضلالة بعد الهدى، وإذا وعدت صاحبك فانجز له ما وعدته، فإن لا تفعل يورث بينك وبينه عداوة، وتعوذ بالله من صاحب إن ذكرت لم يعنك، وإن نسيت لم يذكرك.“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبْزَى قَالَ: قَالَ دَاوُدُ: ”كُنَّ لِلْيَتِيمِ كَالأَبِ الرَّحِيمِ، وَاعْلَمْ أَنَّكَ كَمَا تَزْرَعُ كَذَلِكَ تَحْصُدُ، مَا أَقْبَحَ الْفَقْرَ بَعْدَ الْغِنَى، وَأَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، أَوْ أَقْبَحُ مِنْ ذَلِكَ، الضَّلاَلَةُ بَعْدَ الْهُدَى، وَإِذَا وَعَدْتَ صَاحِبَكَ فَأَنْجِزْ لَهُ مَا وَعَدْتَهُ، فَإِنْ لاَ تَفْعَلْ يُورِثُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ صَاحِبٍ إِنْ ذَكَرْتَ لَمْ يُعِنْكَ، وَإِنْ نَسِيتَ لَمْ يُذَكِّرْكَ.“
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام نے فرمایا: یتیم کے لیے رحم دل باپ کی طرح ہو جاؤ، اور جان لو کہ جو تم بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ تونگری کے بعد فقیری کس قدر بری ہے! اس سے بھی زیادہ یا بد ترین ہدایت کے بعد گمراہی ہے۔ اور جب تم کسی ساتھی سے وعدہ کرو تو اسے پورا کرو کیونکہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم میں باہم بغض و عداوت پیدا ہو جائے گا اور ایسے دوست سے اللہ کی پناہ طلب کرو جو ضرورت پڑھنے پر تیری اعانت نہ کرے اور اگر تو بھول جائے تو تجھے یاد نہ دلائے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: رواه أبوعبيد فى المواعظ: 53 و ابن أبى الدنيا فى إصلاح المال: 446 و فى النفقة على العيال: 619 و معمر بن راشد فى الجامع: 20593 و البيهقي فى الشعب: 10528»
نجيح ابو عمارة قال: سمعت الحسن يقول: لقد عهدت المسلمين، وإن الرجل منهم ليصبح فيقول: يا اهليه، يا اهليه، يتيمكم يتيمكم، يا اهليه، يا اهليه، مسكينكم مسكينكم، يا اهليه، يا اهليه، جاركم جاركم، واسرع بخياركم وانتم كل يوم ترذلون. وسمعته يقول: وإذا شئت رايته فاسقا يتعمق بثلاثين الفا إلى النار ما له قاتله الله؟ باع خلاقه من الله بثمن عنز، وإن شئت رايته مضيعا مربدا في سبيل الشيطان، لا واعظ له من نفسه ولا من الناس.نَجِيحٍ أَبُو عُمَارَةَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: لَقَدْ عَهِدْتُ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ لَيُصْبِحُ فَيَقُولُ: يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَتِيمَكُمْ يَتِيمَكُمْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، مِسْكِينَكُمْ مِسْكِينَكُمْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، جَارَكُمْ جَارَكُمْ، وَأُسْرِعَ بِخِيَارِكُمْ وَأَنْتُمْ كُلَّ يَوْمٍ تَرْذُلُونَ. وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَإِذَا شِئْتَ رَأَيْتَهُ فَاسِقًا يَتَعَمَّقُ بِثَلاَثِينَ أَلْفًا إِلَى النَّارِ مَا لَهُ قَاتَلَهُ اللَّهُ؟ بَاعَ خَلاَقَهُ مِنَ اللهِ بِثَمَنِ عَنْزٍ، وَإِنْ شِئْتَ رَأَيْتَهُ مُضَيِّعًا مُرْبَدًّا فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ، لاَ وَاعِظَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَلاَ مِنَ النَّاسِ.
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کا وہ دور بھی پایا ہے کہ آدمی صبح اٹھتے ہی کہتا تھا: اے گھر والو! اے اہل خانہ! اپنے یتیم کا خیال رکھنا اور اس کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا، اے گھر والو! اپنے مسکین کا خیال رکھو، اور اے گھر والو! اے اہل خانہ! اپنے پڑوسی کی خبر لو، اور اس کا خیال کرو۔ تمہارے اچھے لوگ جلدی جا رہے ہیں، اور تم ہر روز دینی طور پر پست ہوتے جا رہے ہو۔ (راوی کہتا ہے) اور میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے بھی سنا: اور آج اگر تو کسی فاسق کو دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے جو تیس ہزار (گناہوں میں) خرچ کر کے جہنم کی طرف جا رہا ہے۔ اس شخص کو کیا ہے؟ اللہ اسے غارت کرے اس نے اپنا حصہ جو اللہ سے (ثواب کی صورت میں) مل سکتا تھا ایک بکری کی قیمت (معمولی قیمت) کے بدلے بیچ دیا (یعنی اتنا زیادہ معمولی لذت نفس میں اڑا دیا)، اور اگر تو کسی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جس نے اپنا کھلیان (یعنی ساری دولت) شیطان کی راہ میں خرچ کر کے ضائع کر دی تو ایسا شخص بھی دیکھا جا سکتا ہے، نہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے اور نہ لوگوں میں سے کوئی اسے صحیح راہ پر لانے والا ہے۔
حدثنا موسى، قال: حدثنا سلام بن ابي مطيع، عن اسماء بن عبيد قال: قلت لابن سيرين: عندي يتيم، قال: اصنع به ما تصنع بولدك، اضربه ما تضرب ولدك.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ سِيرِينَ: عِنْدِي يَتِيمٌ، قَالَ: اصْنَعْ بِهِ مَا تَصْنَعُ بِوَلَدِكَ، اضْرِبْهُ مَا تَضْرِبُ وَلَدَكَ.
حضرت اسماء بن عبید سے مروی ہے کہ میں نے ابن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میری زیر کفالت ایک یتیم ہے (میں اس سے کیسا سلوک کروں؟) انہوں نے فرمایا: اس سے وہی سلوک کرو جو اپنی اولاد سے کرتے ہو اور جس بات پر اپنی اولاد کو مارتے ہو اسے بھی مارو۔