حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا صفوان بن عمرو قال: حدثني عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه قال: جلسنا إلى المقداد بن الاسود يوما، فمر به رجل فقال: طوبى لهاتين العينين اللتين راتا رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله لوددنا انا راينا ما رايت، وشهدنا ما شهدت. فاستغضب، فجعلت اعجب، ما قال إلا خيرا، ثم اقبل عليه فقال: ما يحمل الرجل على ان يتمنى محضرا غيبه الله عنه؟ لا يدري لو شهده كيف يكون فيه؟ والله، لقد حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم اقوام كبهم الله على مناخرهم في جهنم، لم يجيبوه ولم يصدقوه، اولا تحمدون الله عز وجل إذ اخرجكم لا تعرفون إلا ربكم، فتصدقون بما جاء به نبيكم صلى الله عليه وسلم، قد كفيتم البلاء بغيركم، والله لقد بعث النبي صلى الله عليه وسلم على اشد حال بعث عليها نبي قط، في فترة وجاهلية، ما يرون ان دينا افضل من عبادة الاوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل، وفرق به بين الوالد وولده، حتى إن كان الرجل ليرى والده او ولده او اخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه بالإيمان، ويعلم انه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه، وهو يعلم ان حبيبه في النار، وانها للتي قال الله عز وجل: والذين يقولون ﴿ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين﴾ [الفرقان: 74] .حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ يَوْمًا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ فَقَالَ: طُوبَى لِهَاتَيْنِ الْعَيْنَيْنِ اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا رَأَيْنَا مَا رَأَيْتَ، وَشَهِدْنَا مَا شَهِدْتَ. فَاسْتُغْضِبَ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ، مَا قَالَ إِلاَّ خَيْرًا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَا يَحْمِلُ الرَّجُلُ عَلَى أَنْ يَتَمَنَّى مُحْضَرًا غَيَّبَهُ اللَّهُ عَنْهُ؟ لاَ يَدْرِي لَوْ شَهِدَهُ كَيْفَ يَكُونُ فِيهِ؟ وَاللَّهِ، لَقَدْ حَضَرَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْوَامٌ كَبَّهُمُ اللَّهُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي جَهَنَّمَ، لَمْ يُجِيبُوهُ وَلَمْ يُصَدِّقُوهُ، أَوَلاَ تَحْمَدُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ أَخْرَجَكُمْ لاَ تَعْرِفُونَ إِلاَّ رَبَّكُمْ، فَتُصَدِّقُونَ بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ كُفِيتُمُ الْبَلاَءَ بِغَيْرِكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَشَدِّ حَالٍ بُعِثَ عَلَيْهَا نَبِيٌّ قَطُّ، فِي فَتْرَةٍ وَجَاهِلِيَّةٍ، مَا يَرَوْنَ أَنَّ دِينًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ، فَجَاءَ بِفُرْقَانٍ فَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَفَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ، حَتَّى إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَرَى وَالِدَهُ أَوْ وَلَدَهُ أَوْ أَخَاهُ كَافِرًا، وَقَدْ فَتْحَ اللَّهُ قُفْلَ قَلْبِهِ بِالإِيمَانِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ إِنْ هَلَكَ دَخَلَ النَّارَ، فَلاَ تَقَرُّ عَيْنُهُ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ، وَأنَّهَا لِلَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَالَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ ﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ﴾ [الفرقان: 74] .
حضرت جبیر بن نفیر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی وہاں سے گزرا تو اس نے کہا: کتنی باسعادت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، اللہ کی قسم! ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی وہ دیکھتے جو آپ نے دیکھا ہے، اور ہم بھی ان مواقع پر موجود ہوتے جن پر آپ موجود رہے ہیں۔ اس بات سے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ غصے میں آ گئے تو مجھے ان تعجب ہوا کہ (غصے والی کیا بات ہے؟) اس نے اچھی بات ہی کی ہے۔ پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر موجود ہونے کی تمنا کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے غائب رکھا ہے۔ نہ معلوم وہ اس موقع پر موجود ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟ اللہ کی قسم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کتنے لوگ حاضر ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کے بل جہنم میں اوندھا کر دیا۔ (کیونکہ) انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ کیا تم اس بات پر اللہ کی تعریف بیان نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا فرمایا تو تم اپنے رب کے سوا کسی (غیر اللہ) کو نہیں جانتے، یعنی ہر طرف ایمان ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرتے ہو۔ (تصدیق و تکذیب کی) آزمائش دوسرے لوگوں کے ذریعے تم سے ٹل گئی۔ اللہ کی قسم! جیسے سخت حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے کوئی نبی ایسے حالات میں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ فترت اور جاہلیت کا زمانہ تھا (کہ سال ہا سال تک نبی مبعوث نہ ہوا تھا)، بتوں کی عبادت سے بڑھ کر لوگ کسی دین کو افضل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان لے کر آئے جس کے ذریعے حق اور باطل میں امتیاز کیا۔ باپ بیٹے کے درمیان جدائی کر دی یہاں تک ایسا موقع آ گیا کہ ایک (مومن) آدمی اپنے والد، بیٹے اور بھائی کو کافر دیکھتا تھا اور خود اس کے دل کے تالے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے کھول دیئے۔ وہ جانتا تھا کہ یقیناً اگر وہ (اس کا باپ یا بھائی) ہلاک ہو گیا تو دوزخ میں جائے گا، لہٰذا (انہیں دیکھ کر) اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوتی تھیں، جبکہ وہ جانتا ہوتا کہ اس کا حبیب دوزخ میں جانے والا ہے۔ اور یہ (اولاد کی محبت) ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 23810 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 292 و الطبراني فى الكبير: 253/20 و ابن حبان: 6552 - الصحيحة: 2823»