اخبرنا يحيى بن آدم، عن حفص بن غياث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة قالت:" جاءت زينب امراة عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إن زوجي فقير، وإن بني اخ لي ايتام في حجري، وانا منفقة عليهم هكذا وهكذا، وعلى كل حال فهل لي اجر فيما انفقت عليهم؟ فقال: ((نعم)) وكانت صناع اليدين".أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:" جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ زَوْجِي فَقِيرٌ، وَإِنَّ بَنِي أَخٍ لِي أَيْتَامٌ فِي حِجْرِي، وَأَنَا مُنْفِقَةٌ عَلَيْهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَعَلَى كُلِّ حَالٍ فَهَلْ لِي أَجْرٌ فِيمَا أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ)) وَكَانَتْ صَنَاعَ الْيَدَيْنِ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، تو عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر آئیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ کے پاس مال کم ہے اور میرے یتیم بھتیجے ہیں تو اگر میں صدقہ سے ان پر خرچ کروں تو میری طرف سے کفایت کر جائے گا جبکہ میں ان پر فلاں فلاں مد میں سے خرچ کرتی ہوں، اور ہر حال میں (ان پر خرچ کرتی ہوں)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ راوی نے بیان کیا، وہ دستکار خاتون تھیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، ابواب الزكاة، باب الصدقة على ذي قرابة، رقم: 1835. اسناده صحيح»
اخبرنا عبد الرزاق، نا معمر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة: انها قالت: يا رسول الله، إن بني ام سلمة في حجري، وليس لهم شيء إلا ما انفقت عليهم ولست بتاركيهم كذا وكذا افلي اجر إن انفقت عليهم؟ فقال: ((نعم،.أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَنِي أُمِّ سَلَمَةَ فِي حِجْرِي، وَلَيْسَ لَهُمْ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ وَلَسْتُ بِتَارِكِيهِمْ كَذَا وَكَذَا أَفَلِي أَجْرٌ إِنْ أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ،.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ کے بچے میری پرورش (کفالت) میں ہیں، کیا میرے لیے کفایت کرتا ہے کہ میں صدقہ میں سے ان پر خرچ کروں، اور میں ان پر خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الزكاة، باب الزكاة على الزوج والا يتام فى الحجر، رقم: 1466. مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل التفقة والصدقة الخ، رقم: 1000.»
اخبرنا يحيى بن آدم، نا عبد الرحيم بن سليمان، عن المجالد بن سعيد، عن شعبة، عن زينب الثقفية قالت: كنت جمعت مويلا لي فقلت لاضعنه في ازكى موضع عندي، فقلت في نفسي: لو تصدقت به في سبيل الله في بعض سرايا رسول الله صلى الله عليه وسلم التي يبعثها، او اشتري به نسمة مسلمة فاعتقها، او تصدقت به على المساكين، او تصدقت به على زوج مجهود وبني اخ يتامى في حجري، فاتيت عائشة اسالها، عن ذلك، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا عائشة: ((من هذه؟)) قالت امراة ابن ام عبد. قال: ((فما جاء بها)) فذكرت عائشة له ذلك. فقال: لترده على زوجها المجهود وبني اخيها اليتامى يكن لها اجرها مرتين".أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْمُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ قَالَتْ: كُنْتُ جَمَعْتُ مُويلَا لِي فَقُلْتُ لَأَضَعَنَّهُ فِي أَزْكَى مَوْضِعٍ عِنْدِي، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي بَعْضِ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَبْعَثُهَا، أَوْ أَشْتَرِي بِهِ نَسَمَةً مُسْلِمَةً فَأَعْتِقُهَا، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى الْمَسَاكِينِ، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى زَوْجٍ مَجْهُودٍ وَبَنِي أَخٍ يَتَامَى فِي حِجْرِي، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا، عَنْ ذَلِكَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ: ((مَنْ هَذِهِ؟)) قَالَتِ امْرَأَةُ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ. قَالَ: ((فَمَا جَاءَ بِهَا)) فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لَهُ ذَلِكَ. فَقَالَ: لِتَرُدُّهُ عَلَى زَوْجِهَا الْمَجْهُودِ وَبَنِي أَخِيهَا الْيَتَامَى يَكُنْ لَهَا أَجْرُهَا مَرَّتَيْنِ".
زینب ثقفیہ نے بیان کیا: میں اپنا مال جمع کیا کرتی تھی، تو میں نے کہا: میں اسے اپنے ہاں کسی بہترین جگہ پر رکھوں گی، میں نے اپنے دل میں کہا: اگر میں اسے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لشکر میں جسے آپ بھیجیں گے خرچ کر دوں، یا کسی مسلمان لونڈی کو خرید کر آزاد کر دوں یا اسے مسکینوں پر صدقہ کر دوں یا قلیل مال والے شوہر پر صدقہ کر دوں یا اپنی زیر کفالت یتیم بھتیجوں پر صدقہ کر دوں گی، پس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تاکہ اس کے متعلق ان سے دریافت کروں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو فرمایا: ”عائشہ! یہ کون ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا: ابن ام عبد کی اہلیہ ہیں، فرمایا: ”وہ کس لیے آئی ہیں؟“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا تذکرہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اسے اپنے قلیل مال والے شوہر اور اپنے یتیم بھتیجوں پر خرچ کرے، اس کے لیے دوگنا اجر ہو گا۔“
اخبرنا عبدة بن سليمان، نا هشام بن عروة، عن ابيه قال: كانت زينب امراة عبد الله بن مسعود صناع اليدين تصنع الشيء ثم تبيعه، ولم يكن لعبد الله مال ولا لولده فقالت امراته: ستعلمون ان اتصدق، فقال عبد الله: ما احب إن لم يكن لك اجر فيما تنفقين ان تفعلي، فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصت عليه القصة، فقال: ((انفقي عليهم فلك اجر فيما انفقت عليهم)).أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ صَنَاعَ الْيَدَيْنِ تَصْنَعُ الشَّيْءَ ثُمَّ تَبِيعُهُ، وَلَمْ يَكُنْ لِعَبْدِ اللَّهِ مَالٌ وَلَا لِوَلَدِهِ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: سَتَعْلَمُونَ أَنْ أَتَصَدَّقَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَا أُحِبُّ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكِ أَجْرٌ فِيمَا تُنْفِقِينَ أَنْ تَفْعَلِيَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَّتْ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: ((أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ فَلَكِ أَجْرٌ فِيمَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ)).
عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہا کی زوجہ ہنر مند تھیں، وہ چیز تیار کرتیں اور پھر اسے فروخت کرتی تھیں، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے پاس مال نہیں تھا، ان کی اہلیہ نے انہیں کہا: تم نے صدقہ کرنے سے میری توجہ ہٹا دی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس (ہم پر خرچ کرنے) میں تمہارے لیے اجر نہ ہو تو پھر مجھے یہ پسند نہیں کہ تم یہ کرو، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو پورا واقعہ بیان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان پر جو خرچ کرتی ہو، اس کا تمہیں اجر ملے گا، پس ان پر خرچ کرو۔“
تخریج الحدیث: «سنن كبريٰ بيهقي: 178/4. صحيح ابن حبان، رقم: 4247. قال شعيب الارناوط: اسناده صحيح.»
اخبرنا عيسى بن يونس، نا زكريا بن ابي زائدة، عن الشعبي، ان زينب امراة عبد الله سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصدقة على الاقارب، فقال: ((الصدقة على الاقارب تضاعف على غير الاقارب مرتين)).أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ زَيْنَبَ امْرَأَةَ عَبْدِ اللَّهِ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقَارِبِ، فَقَالَ: ((الصَّدَقَةُ عَلَى الْأَقَارِبِ تُضَاعَفُ عَلَى غَيْرِ الْأَقَارِبِ مَرَّتَيْنِ)).
شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کے متعلق مسئلہ دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشتے داروں پر صدقہ کرنے کا غیر رشتے داروں پر صدقہ کرنے سے دوگنا اجر ملتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «سنن نسائي، كتاب الزكاة، باب الصدقة على الاقارب، رقم: 2582. طبراني كبير: 287/24: 731. قال عبد الغفور بلوشي: رجالة ثقات.»
اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن إبراهيم قال: جاءت امراة عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إن لي حليا، وإن في حجري بني اخ ايتاما افاجعل زكوة حلي فيهم؟ فقال: ((نعم)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي حُلِيًّا، وَإِنَّ فِي حِجْرِي بَنِي أَخٍ أَيْتَامًا أَفَأَجْعَلُ زَكْوَةَ حُلِيِّ فِيهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ)).
ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ) نے بیان کیا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس زیور ہے اور میرے یتیم بھتیجے میری پرورش میں ہیں، تو کیا میں اپنے زیورات کی زکوٰۃ ان پر خرچ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الزكاة، باب الزكاة على الزوج، والا يتام فى الحجر، رقم: 1466.»
اخبرنا يحيى بن آدم، نا الفضل بن مهلهل، عن المغيرة، عن إبراهيم قال: جاءت امراة عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إن في حجري بني اخ لي او بني اخ لعبد الله افاجعل زكوة مالي فيهم؟ فقال: ((نعم)) قال المفضل: شك المغيرة في بني اخيها او بني اخي عبد الله.أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا الْفَضْلُ بْنُ مُهَلْهَلٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ فِي حِجْرِي بَنِي أَخٍ لِي أَوْ بَنِي أَخٍ لِعَبْدِ اللَّهِ أَفَأَجْعَلُ زَكْوَةَ مَالِي فِيهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ)) قَالَ الْمُفَضَّلُ: شَكَّ الْمُغِيرَةُ فِي بَنِي أَخِيهَا أَوْ بَنِي أَخِي عَبْدِ اللَّهِ.
ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ) نے بیان کیا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو عرض کیا: میرے یا عبداللہ (رضی اللہ عنہا) کے بھتیجے میری پرورش میں ہیں، کیا میں اپنے مال کی زکوٰۃ ان پر خرچ کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
اخبرنا يحيى بن آدم، نا إسرائيل، عن مغيرة، عن إبراهيم قال: جاءت امراة عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إنه مخف ذو اكل لعبد الله، افيجزئني ان اجعل صدقة مالي فيهم؟ فقال: ((نعم)).أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّهُ مُخِفٌّ ذُو أَكْلٍ لِعَبْدِ اللَّهِ، أَفَيُجْزِئُنِي أَنْ أَجْعَلَ صَدَقَةَ مَالِي فِيهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ)).
ابراہیم رحمہ اللہ نے بیان کیا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو عرض کیا: عبداللہ کے (بھتیجے میری پرورش میں ہیں) اگر میں اپنے مال کا صدقہ ان پر خرچ کروں تو وہ مجھ سے کفایت کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“