نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اللہ تعالیٰ کے قول ((ولا تسلوا عن اشیائ ان تبدلکم تسکم)) کے بارے میں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بری تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ لائی گئی اور میں نے آج کی سی بہتری اور آج کی سی برائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں نعمتیں اور دوزخ میں عذاب)۔ اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا۔ انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان سے نکلنے لگی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہو گئے۔ ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ فلاں شخص تھا (اس کا نام بتا دیا) تب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو تم کو بری لگیں“۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے سب سے بڑا قصور اس مسلمان کا ہے جس نے وہ بات پوچھی جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔
|