نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درخت کا تابع فرمان ہو جانا۔
سیدنا عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں اور میرا والد حصول علم کی غرض سے قبیلہ انصار کی طرف نکلے مبادا یہ کہ ان کا کوئی فرد باقی نہ رہے (فوت ہو جائیں یا ادھر ادھر ہجرت کر جائیں)۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم ابوالیسر سے ملے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا جو کتابوں (خطوں) کا ایک بنڈل لئے ہوئے تھا۔ اور ابوالیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک معافری نامی ایک کپڑا تھا۔ ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک معافری کپڑا تھا (یعنی مالک اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے تھے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا آپ کچھ رنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بولے کہ بنی حرام قبیلے کے فلاں بن فلاں پر میرا قرض آتا تھا، میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہے۔ اتنے میں اس کا ایک نوجوان بیٹا باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے؟ وہ بولا کہ آپ کی آواز سن کر میری ماں کے چھپر گھٹ میں گھس گیا ہے۔ تب میں نے آواز دی اور کہا کہ اے فلاں! باہر نکل مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تو کہاں ہے۔ یہ سن کر وہ باہر نکلا۔ میں نے کہا کہ تو مجھ سے چھپ کیوں رہا ہے؟ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا، اللہ کی قسم میں ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بات کروں یا وعدہ کروں اور اس کے خلاف کروں اور تم صحابی رسول ہو، اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں۔ میں نے اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم واقعی محتاج ہو؟ تو اس نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ میں محتاج ہوں۔ میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے پھر قسم کھائی، میں نے پھر قسم دی تو اس نے پھر اللہ کی قسم کھائی۔ پھر اس کا وثیقہ یا نوشتہ (قرض نامہ) لایا گیا۔ ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا کہ اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا وگرنہ تو آزاد ہے۔ پس میں گواہی دیتا ہوں، میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔ عبادہ نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا اگر تم اپنے غلام کی چادر لے لو اور اپنا معافری کپڑا اس کو دے دو، تو تمہارے پاس بھی ایک جوڑا پورا ہو جائے گا اور اس کے پاس بھی ایک جوڑا ہو جائے گا۔ ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا یا اللہ اس لڑکے کو برکت دے، اے میرے بھتیجے! میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا اور اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لونڈی اور غلام کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ پھر اگر میں اس کو دنیا کا سامان دے دوں تو وہ میرے نزدیک اس سے آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔ عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم چلے یہاں تک کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں پہنچے، وہ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا ان کے اور قبلہ کے درمیان میں جا بیٹھا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کی (دوسری) چادر آپ کے پہلو میں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے سینے پر اس طرح سے اشارہ کیا، انگلیوں کو کشادہ رکھتے ہوئے انہیں کمان کی طرح خم کیا اور کہا کہ میں نے یہ چاہا کہ تیری مانند کوئی احمق میرے پاس آئے، پھر وہ مجھے دیکھے جو میں کرتا ہوں اور ویسا ہی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ابن طاب (کھجور) کی ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم دیکھا (کسی نے تھوکا تھا)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لکڑی سے کھرچ ڈالا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون یہ بات پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے تو کوئی بھی یہ نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں کھڑا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہوتا ہے (نووی نے کہا یعنی جہت جس کو اللہ تعالیٰ نے عظمت دی یا کعبہ)، تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف بلکہ بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے (تھوکے)۔ اگر بلغم جلدی نکلنا چاہے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر ایسا کر لے، پھر اپنے کپڑے کو تہہ در تہہ لپیٹا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میرے پاس خوشبو لاؤ۔ ہمارے قبیلے کا ایک جوان لپکا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر میں گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشبو کو لکڑی کی نوک پر لگایا اور جہاں اس بلغم کا نشان مسجد پر تھا وہاں خوشبو لگا دی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث سے تم اپنی مسجدوں میں خوشبو رکھتے ہو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن بواط کی لڑائی میں چلے (وہ جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجدی بن عمرو جہنی کی تلاش میں تھے (جو ایک کافر تھا) اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا، جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک انصاری کی باری آئی، اس نے اونٹ کو بٹھایا، اس پر چڑھا، پھر اس کو اٹھایا تو اونٹ کچھ اڑا۔ وہ انصاری بولا ”شائ“ (یہ کلمہ ہے اونٹ کو ڈانٹنے کا) اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون ہے جو اپنے اونٹ پر لعنت کرتا ہے؟ وہ انصاری بولا کہ میں ہوں یا رسول اللہ!۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ پر سے اتر جا اور ہمارے ساتھ وہ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ اپنی جانوں، اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لئے بددعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت نکلے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کر لیتا ہے (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آ جائے)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، جب شام ہوئی اور عرب کے ایک چشمے کے قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص ہم لوگوں سے آگے بڑھ کر اس حوض کو درست کرے گا، خود بھی پیئے اور ہم کو بھی پلائے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں وہ شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا؟ چنانچہ جبار بن صخر اٹھے۔ خیر ہم دونوں آدمی کنویں / چشمے کی طرف چلے اور حوض میں ایک یا دو ڈول ڈالے، پھر اس پر مٹی لگائی۔ اس کے بعد اس میں پانی بھرنا شروع کیا، یہاں تک کہ لبالب بھر دیا۔ سب سے پہلے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں (مجھے اور میرے جانوروں کو پانی پینے پلانے کی) اجازت دیتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہ!“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا، اس نے پانی پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باگ کھینچی اس نے پانی پینا موقوف کیا اور پیشاب کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو الگ لے گئے اور بٹھا دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حوض کی طرف آئے، اس میں سے وضو کیا۔ میں بھی کھڑا ہوا اور جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا میں نے بھی وہیں سے وضو کیا۔ جبار بن صخر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میرے بدن پر ایک چادر تھی۔ میں اس کے دونوں کناروں کو الٹنے لگا، وہ چھوٹی ہوئی، اس (چادر) میں پھندے لگے تھے۔ آخر میں نے اس کو الٹا کیا، پھر اس کے دونوں کنارے الٹے، پھر اس کو اپنی گردن سے باندھا، اس کے بعد آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، گھمایا اور داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ پھر جبار بن صخر آئے، انہوں نے بھی وضو کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے) کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور پیچھے ہٹا دیا یہاں تک کہ ہم کو اپنے پیچھے کھڑا کیا (معلوم ہوا کہ اتنا عمل نماز میں درست ہے)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو گھورنا شروع کیا اور مجھ کو خبر نہیں۔ خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی کمر باندھ لے (تاکہ ستر نہ کھلے)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ اے جابر! میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوں یا رسول اللہ!۔ آپ نے فرمایا جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کنارے الٹ لے اور جب تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو خوراک کے لئے ہر روز ایک کھجور ملتی تھی اور وہ اس کو چوس لیتا تھا۔ پھر اس کو اپنے دانتوں میں پھراتا۔ اور ہم اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑتے اور ان کو کھاتے، یہاں تک کہ (گرمی، خشکی اور پتے کھاتے کھاتے) ہمارے منہ اندر سے زخمی ہو گئے۔ پھر ایک دن کھجور بانٹنے والا ایک شخص کو بھول گیا۔ ہم اس شخص کو اٹھا کر لے گئے اور گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں ملی۔ بانٹنے والے نے اس کو کھجور دی۔ وہ کھڑا ہو گیا اور کھجور لے لی۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت کو تشریف لے گئے۔ ایک ڈول پانی لے کر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آڑ نہ پائی۔ دیکھا تو دو درخت وادی کے کنارے پر لگے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس گئے، اس کی ایک شاخ پکڑی، پھر (درخت سے) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابعدار ہو گیا جیسے وہ اونٹ جس کی ناک میں نکیل ڈال دی جاتی ہے اور وہ اپنے کھینچے والے کا تابعدار ہو جاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی بھی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ بھی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے درمیان میں پہنچے تو ان کو ایک ساتھ کر کے فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرے سامنے جڑ جاؤ، چنانچہ وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں دوڑتا ہوا نکلا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور کہیں تشریف لے جائیں۔ میں بیٹھا اپنے دل میں باتیں کئے جا رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی جڑ پر کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے ہوئے اور سر سے اس طرح دائیں اور بائیں اشارہ کیا، پھر سامنے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا اے جابر! میں جہاں کھڑا تھا تو نے دیکھا؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ”جی ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لے آؤ۔ جب اس جگہ پہنچے جہاں میں کھڑا ہوا تھا تو ایک شاخ اپنی داہنی طرف ڈال دے اور ایک ڈالی بائیں طرف۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور ایک پتھر لیا، اس کو توڑ کر تیز کیا۔ وہ تیز ہو گیا تو ان دونوں درختوں کے پاس آیا اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹی، پھر میں ان شاخوں کو کھینچتا ہوا اس جگہ پر لے آیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے تھے اور ایک شاخ داہنی طرف ڈال دی اور ایک شاخ بائیں طرف ڈال دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا اور عرض کیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ میں نے کر دیا، لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہاں دو قبریں ہیں، ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے تو میں نے چاہا کہ ان کی سفارش کروں، جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم لشکر میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جابر! لوگوں وضو کے پانی کے لئے آواز لگاؤ۔ میں نے تین دفعہ آواز دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قافلہ میں ایک قطرہ پانی کا نہیں ہے۔ ایک انصاری مرد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مشک میں جو لکڑی کی شاخوں پر لٹکتی تھی، پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو، کیا اس کی مشک میں کچھ پانی ہے؟ میں گیا، دیکھا تو مشک میں پانی نہیں، اس کے منہ میں صرف ایک قطرہ ہے کہ اگر اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی لے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس مشک میں تو پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ اس کے منہ میں ہے، اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اس مشک کو میرے پاس لے آؤ۔ میں اسی مشک کو لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا، پھر زبان سے کچھ فرمانے لگے جس کو میں سمجھ نہ سکا اور مشک کو اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے۔ پھر وہ مشک میرے حوالے کی اور فرمایا کہ اے جابر آواز دے کہ قافلے کا گھڑا لاؤ (یعنی پانی والا بڑا برتن)۔ میں نے آواز دی وہ (برتن) لایا گیا۔ لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ برتن رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس گھڑے میں پھیر کر اس طرح سے پھیلا کر انگلیوں کو کشادہ کیا، پھر اپنا ہاتھ اس کی تہہ میں رکھ دیا اور فرمایا اے جابر! وہ مشک لے اور میرے ہاتھ پر ڈال دے اور بسم اللہ کہہ کر ڈالنا۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ پانی ڈال دیا۔ پھر میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جوش مار رہا تھا، یہاں تک کہ گھڑے نے جوش مارا اور گھوما اور بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے جابر! آواز دے کہ جس کو پانی کی حاجت ہو (وہ آئے)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ آئے، پانی لیا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ میں نے کہا کوئی ایسا بھی رہا جس کو پانی کی ضرورت ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ گھڑے سے اٹھا لیا اور وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تم کو کھلائے۔ پھر ہم دریا (یعنی سمندر) کے کنارے پر آئے۔ سمندر کی لہر نے جوش مارا اور ایک جانور باہر ڈال دیا۔ ہم نے اس کے کنارے آگ سلگائی اور اس جانور کا گوشت بھون کر پکایا اور سیر ہو کر کھایا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اور فلاں فلاں پانچ آدمی اس کی آنکھ کے گولے میں گھس گئے، ہم کو کوئی نہ دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے (اتنا بڑا جانور تھا)۔ پھر ہم نے اس کی پسلیوں میں سے پسلی لی اور قافلے میں سے اس شخص کو بلایا جو سب سے بڑا تھا اور سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا اور سب سے بڑا زین اس پر تھا تو وہ اپنا سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے سے گزر گیا (اتنی اونچی اس جانور کی پسلی تھی۔ بیشک اللہ اپنے راہ میں نکلنے والوں کو دیتا ہے)۔
|