نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی وجہ سے) طعام میں برکت۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آدھا وسق جو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے)۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بےصبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا، اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔ پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیدیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رات کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کے ڈر سے) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے برا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے)۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام ام رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے)۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔
|