ہجرت اور غزوات بیان میں حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح کا بیان۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب (وہاں جانے سے) روکے گئے اور مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر صلح کی کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر لائیں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو (مشرکوں کا ساتھ قبول کر کے) رہ جائے تو اس کو منع نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اچھا اس شرط کو لکھو کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا، تو مشرک بولے کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کر لیتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے بلکہ یہ لکھئے کہ محمد بن عبداللہ نے فیصلہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹانے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتاؤ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بتا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا (جب دوسرا سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے)۔ پھر تین روز تک مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا، تو مشرکوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے اب ان سے جانے کو کہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل آئے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ((انّا فتحنا لک فتحاً ....)) (الفتح: 5-1) آخر تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹ کر آ رہے تھے اور صحابہ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں قربانی کے جانوروں کو ذبح و نحر کر دیا تھا (کیونکہ کافروں نے مکہ میں آنے نہ دیا)، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اوپر ایک آیت اتری ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہے۔
|