ایمان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰ علیہ السلام کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یاد نہ رہا)۔ جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیکری پر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سی ٹیکری ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ’ ہرشا ‘ کی یا ’ لفت ‘ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے) کہ وہ لمبے، چھریرے بدن والے، سیاہ بالوں والے جیسے شنوۃ کے لوگ ہوتے تھے۔ اور فرمایا کہ میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قد والے، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تروتازہ اور خوش رنگ) تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب، اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے۔ اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔
|