ایمان کے متعلق ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔
ابوجمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمندہ ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ نے) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے ((من وّرآئکم)) کہا بدلے ((من ورآئکم)) کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں اپنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰۃ کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے) تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یا رسول اللہ! قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے“۔ (سورۃ: لقمان: 34) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔
سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں) اپنے والد (سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابوطالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابوجہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابوطالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابوطالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے اور ادھر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابوطالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (سورۃ: التوبہ: 113) اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“ (سورۃ: القصص: 56)۔
|