سنن ترمذي
كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ
1. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
باب: اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کا بیان۔
حدیث نمبر: 2859
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَى كَنَفَيِ الصِّرَاطِ دَارَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ، عَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ، وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ، وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ سورة يونس آية 25، وَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَى كَنَفَيِ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ، فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّى يُكْشَفَ السِّتْرُ، وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ، سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ، يَقُولُ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَكُمْ عَنِ الثِّقَاتِ، وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَكُمْ عَنِ الثِّقَاتِ وَلَا غَيْرِ الثِّقَاتِ.
نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دو گھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا پکار رہا ہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکار رہا ہے،
(پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) «والله يدعوا إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم» ”اللہ تعالیٰ دارالسلام
(جنت کی طرف) بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے
”صراط مستقیم
“ کی ہدایت دیتا ہے
“، تو وہ دروازے جو صراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں
۱؎ تو کوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیا جائے، حدود اللہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سنا وہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا: بقیہ
(راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 11714) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑ سکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہو جائے گا۔
۲؎: اس حدیث میں ”صراط مستقیم“ سے مراد اسلام ہے، اور ”کھلے ہوئے دروازوں“ سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور ”لٹکے ہوئے پردے“ اللہ کی حدود ہیں، اور ”راستے کے سرے پر بلانے والا داعی“ قرآن ہے، اور ”اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی“ مومن کا دل ہے۔قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (191 و 192)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2859 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2859
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ،
ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑ سکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے،
اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہو جائے گا۔
2؎:
ا س حدیث میں ”صراط مستقیم“ سے مراد اسلام ہے،
اور ”کھلے ہوئے دروازوں“ سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور ”لٹکے ہوئے پردے“ اللہ کی حدود ہیں،
اور ”راستے کے سرے پر بلانے والا داعی“ قرآن ہے،
اور ”اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی“ مومن کا دل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2859
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 192
´صراۃ مستقیم کی مثال`
«. . . وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَكَذَا التِّرْمِذِيُّ عَنْهُ إِلَّا أَنَّهُ ذَكَرَ أخصر مِنْهُ . . .»
”. . . احمد اور بیہقی نے شعب الایمان میں سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اسی طرح ترمذی نے ان سے روایت کیا ہے مگر ترمذی نے ذرا اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 192]
فقہ الحدیث
مسند أحمد [الموسوعة الحديثيه 181/29، 182ح 17634] وغیرہ میں سیدنا نواس بن سمعان الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ضرب الله مثلا صراطا مستقيما وعليٰ جنبتي صراط سوران فيهما أبواب مفتحة وعلى الأبواب ستور مرخاة وعلى باب الصراط داع يقول: أيها الناس! ادخلوا الصراط جميعا ولا تتفرقوا و داع يدعو من فوق الصراط فإذا أراد أن يفتح شيئا من تلك الأبواب قال: ويحك! لا تفتحه فانك ان تفتحه تلجه، والصراط: الاسلام والسوران: حدود الله والابواب المفتحة محارم الله وذلك الداعي على راس الصراط: كتاب الله والداعي من فوق الصراط: واعظ الله فى قلب كل مسلم .»
”اللہ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی، راستے کے دونوں طرف دو فصیلیں ہیں جن میں دروازے کھلے ہوئے ہیں اور ہر دروازے پر پردہ لٹکا ہوا ہے۔ ہر دروازے پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے: اے لوگو! تم سارے کے سارے راستے پر داخل ہو جاؤ اور ٹیڑھے راستوں پر نہ مڑو، جب بھی کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی دروازے کا پردہ کھولنا چاہتا ہے تو راستے کے اوپر سے بلانے والا کہتا ہے: تیری خرابی ہو! اسے نہ کھول، اگر تو نے اسے کھول دیا تو اندر داخل ہو جائے گا۔ راستہ اسلام ہے فصیلیں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ راستے پر آواز دینے والا قرآن ہے اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا اللہ کا واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہے۔“ اس حدیث کی سند حسن ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔ اسے حاکم [73/1] نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 192