كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل 9. باب مَا جَاءَ لاَ عَدْوَى وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ باب: چھوت چھات، الو اور صفر کے مہینہ کی نحوست کی نفی کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی“، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہو جاتے ہیں“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے“ ۱؎۔
اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9640)، وانظر مسند احمد (1/440) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی ”صاحب لنا“ مبہم ہے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہوں، ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (2/327) میں یہ حدیث بواسطہ ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موجود ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاعدوى» یعنی ”بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی“، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، «ھامہ» یعنی الو کا ذکر باب میں ہے، اس حدیث میں نہیں ہے، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیا ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: «و ولاهامة»، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے، اور جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں، یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا (ملاحظہ ہو: النہایۃ فی غریب الحدیث: مادہ: صفر، نیز ان مسائل پر ہم نے سنن ابن ماجہ (کتاب الطب: باب نمبر۴۳، حدیث نمبر ۳۵۳ ۶-۳۵۴۱) میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اس کا مطالعہ مفید ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1152)
|