(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابي قبيل، عن شفي بن ماتع، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كتابان، فقال: " اتدرون ما هذان الكتابان؟ " فقلنا: لا يا رسول الله، إلا ان تخبرنا، فقال للذي في يده اليمنى: " هذا كتاب من رب العالمين، فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم، ثم اجمل على آخرهم، فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا "، ثم قال للذي في شماله: " هذا كتاب من رب العالمين، فيه اسماء اهل النار واسماء آبائهم وقبائلهم، ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا "، فقال اصحابه: ففيم العمل يا رسول الله، إن كان امر قد فرغ منه، فقال: " سددوا وقاربوا فإن صاحب الجنة يختم له بعمل اهل الجنة، وإن عمل اي عمل، وإن صاحب النار يختم له بعمل اهل النار، وإن عمل اي عمل "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه فنبذهما، ثم قال: " فرغ ربكم من العباد، فريق في الجنة وفريق في السعير ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ، عَنْ شُفَيِّ بْنِ مَاتِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَدِهِ كِتَابَانِ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ؟ " فَقُلْنَا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا، فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى: " هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ، فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا "، ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِهِ: " هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا "، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَقَالَ: " سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ، وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ فَنَبَذَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: " فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنَ الْعِبَادِ، فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا: ”تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا ہیں؟“ ہم لوگوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتا دیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا“، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہو چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سیدھی راہ پر چلو اور میانہ روی اختیار کرو، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہو گا، اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہو گا اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، پھر ان دونوں کتابوں کو پھینک دیا اور فرمایا: ”تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 8825)، و مسند احمد (2/167) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (96)، الصحيحة (848)، الظلال (348)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا بكر بن مضر، عن ابي قبيل نحوه، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عمر، وهذا حديث حسن صحيح غريب، وابو قبيل اسمه حيي بن هانئ.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو قَبِيلٍ اسْمُهُ حُيَيُّ بْنُ هَانِئٍ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (96)، الصحيحة (848)، الظلال (348)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اراد الله بعبد خيرا استعمله "، فقيل: كيف يستعمله يا رسول الله؟ قال: " يوفقه لعمل صالح قبل الموت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ "، فَقِيلَ: كَيْفَ يَسْتَعْمِلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " يُوَفِّقُهُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قَبْلَ الْمَوْتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے عمل کراتا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے عمل کراتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے“۔