● صحيح البخاري | 2328 | عبد الله بن عمر | عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير |
● صحيح البخاري | 2329 | عبد الله بن عمر | عامل النبي خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● صحيح البخاري | 2331 | عبد الله بن عمر | أعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما خرج منها |
● صحيح البخاري | 2720 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح البخاري | 2499 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح البخاري | 3152 | عبد الله بن عمر | نقركم على ذلك ما شئنا |
● صحيح البخاري | 2338 | عبد الله بن عمر | أجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها |
● صحيح البخاري | 2730 | عبد الله بن عمر | نقركم ما أقركم الله |
● صحيح البخاري | 4248 | عبد الله بن عمر | أعطى النبي خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح مسلم | 3963 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع يعطي أزواجه كل سنة مائة وسق ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير |
● صحيح مسلم | 3966 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله شطر ثمرها |
● صحيح مسلم | 3967 | عبد الله بن عمر | نقركم بها على ذلك ما شئنا |
● صحيح مسلم | 3962 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● جامع الترمذي | 1383 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● سنن أبي داود | 3408 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع |
● سنن أبي داود | 3409 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها |
● سنن أبي داود | 3008 | عبد الله بن عمر | أقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا |
● سنن أبي داود | 3007 | عبد الله بن عمر | عامل يهود خيبر على أنا نخرجهم إذا شئنا فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم |
● سنن النسائى الصغرى | 3962 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها بأموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها |
● سنن النسائى الصغرى | 3961 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ما يخرج منها |
● سنن ابن ماجه | 2467 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بالشطر مما يخرج من ثمر أو زرع |
● المعجم الصغير للطبراني | 524 | عبد الله بن عمر | أعطى خيبر على النصف مما أخرجت الأرض والنخل |
● المعجم الصغير للطبراني | 517 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من زرع أو تمر يعطي أزواجه في كل عام مائة وسق مائة وسق ثمانين وسقا تمرا وعشرين وسقا شعيرا |
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:
1۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)
2۔
خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3008
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3408
´مساقاۃ یعنی درختوں میں بٹائی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شرط پہ لگایا کہ کھجور یا غلہ کی جو بھی پیداوار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3408]
فوائد ومسائل:
مساقات بھی مزارعت اور مخابرت کی طرح کا معاملہ ہے۔
مگر اسے کھجوروں اور انگوروں وغیرہ کے باغات سے خاص کیا جاتا ہے کہ کھجوروں کا مالک کسی سے طے کرلے کہ وہ ان میں محنت کرے۔
سیراب کرے تو اسے ایک خاص متعین حصہ پھل ملے گا جیسے کہ مزارعت میں ہوتا ہے۔
خیبر میں باغوں کی خدمت کا معاہدہ مساقاہ اور کھیتی کا معاہدہ مزارعت تھا خیبر والی صورت نئی متعارف کردہ جائز صورت تھی سابقہ جاہلی صورت کو اسلام نے حرام قرار دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3408
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3962
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے وہاں کی زمین سے حاصل ہونے والے پھلوں اور کھیتی کا نصف پر معاملہ کر لیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3962]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے اہل خیبر کو اپنے باغات اور کھیت دونوں ہی نصف حصہ پر دئیے تھے،
اس وجہ سے جمہور فقہاء کے نزدیک مساقات جائز ہے،
امام مالک،
امام شافعی،
امام احمد،
امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے،
امام مالک،
امام شافعی کا قول قدیم،
امام احمد اور صاحبین کے نزدیک،
ہر قسم کے باغات حصہ پر دینے جائز ہیں،
امام شافعی کے قول جدید،
اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق،
مساقات صرف انگور یا کھجور کے باغات میں جائز ہے،
باقی باغات میں جائز نہیں،
اور امام داود ظاہری کے نزدیک صرف نخلستان میں جائز ہے،
امام ابو حنیفہ اور امام زفر کے نزدیک مساقات اور مزارعت دونوں کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3962
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3963
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین، اس سے حاصل ہونے والے پھلوں اور پیداوار کے آدھے حصے پر دی، اور آپﷺ ہر سال ازواج مطہرات کو سو (100) وسق دیتے تھے، اَسی (80) وسق، کھجور اور بیس (20) وسق جَو، اور جب خیبر کی زمین کی تقسیم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد ہوئی، تو انہوں نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ وہ زمین اور پانی کا ایک حصہ لے لیں، یا وہ ان کے لیے ہر سال اوساق مہیا کرنے کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3963]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا،
جس کی وجہ آگے آ رہی ہے،
تو زمین مسلمانوں میں تقسیم کر دی،
ازواج مطہرات کو نان و نفقہ کے لیے زمین یا پیداوار میں سے حصہ لینے کا اختیار دیا تاکہ وہ اپنی زندگی میں اس سے اپنی ضروریات پوری کر لیں اور ان کی وفات کے بعد،
وہ زمین بیت المال کو واپس مل جائے،
کیونکہ ازواج مطہرات،
نان و نفقہ کی حقدار تھیں،
آپﷺ کی وراثت ان میں تقسیم نہیں ہو سکتی تھی،
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا،
سال بھر کے لیے اناج یا غلہ رکھنا توکل کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ذخیرہ اندوزی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3963
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3967
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما نے یہودیوں کو حجاز کی سرزمین سے جلا وطن کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا، اور اس پر غلبہ کی بنا پر زمین، اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کی ملکیت میں آ گئی تھی، اس لیے آپﷺ نے یہودیوں کو اس سے نکالنا چاہا، تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ انہیں اس میں اس شرط... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3967]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو مختلف اسباب جمع ہو جانے کی بناء پر خیبر سے نکال دیا تھا،
کیونکہ مسلمانوں کے پاس غلام اور خدمت گزار وافر مقدار میں جمع ہو گئے تھے،
جو یہ کام کاج کر سکتے تھے۔
(2)
یہودیوں نے بدعہدی کرتے ہوئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جو وہاں کسی ضرورت سے گئے تھے،
دھوکے سے ایک مکان کی چھت سے گرا دیا تھا،
جس سے ان کے ہاتھوں اور پاؤں کے جوڑ نکل گئے تھے۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،
جزیرۃالعرب میں دو دین جمع نہیں رہیں گے،
یعنی دو ملتوں کے افراد نہیں رہیں گے،
اور اس سےمراد ارض حجاز تھی،
کیونکہ تیماء جزیرۃالعرب میں ہی واقع ہے۔
(4)
ان میں فسق و فجور اور بے حیائی پھیل گئی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3967
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2338
2338. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔“ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2338]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2338
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2499
2499. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا علاقہ یہودیوں کو اس شرط پر کاشت کے لیے دیا کہ وہ اس میں محنت اور کھیتی باڑی کریں اور ان کے لیے اس زمین کی پیداوار کا نصف ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2499]
حدیث حاشیہ:
اسلام معاشرتی تمدنی امور میں مسلمانوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسری غیرمسلم قوموں سے مل کر اپنے معاشی مسائل حل کرسکتے ہیں نہ صرف کھیتی کیاری بلکہ جملہ دنیاوی امور سب اس اجازت میں شامل ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بہت سے دینی و دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2499
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2720
2720. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں محنت اور کاشت کاری کریں، پھر جو کچھ اس سے پیداوار ہو گی ان کو اس کا نصف ملےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2720]
حدیث حاشیہ:
دو احادیث سے ثابت ہوا کہ معاملات میں مناسب اور جائز شرطیں لگانا اور فریقین کا ان پر معاملہ طے کرلینا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2720
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2730
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ ”جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔“ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔
جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔
وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔
ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔
خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم ﷺ نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔
اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔
اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔
اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2730
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4248
4248. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اسے درست رکھیں اور اس میں کھیتی باڑی کریں تو اس کی پیداوار سے انہیں نصف ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4248]
حدیث حاشیہ:
آدھوآدھ پر معاملہ کرنا اس حدیث سے درست قرار پایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4248
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2328
2328. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے (یہودسے) خیبر کامعاملہ نصف پیداوار پر طے کیا تھا جو اس زمین سے پیدا ہو، خواہ وہ کھجور ہو یا غلہ۔ آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سو وسق دیتے تھے، جن میں اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو ہوتے تھے۔ جب حضرت عمر ؓ نے خیبر کی زمین تقسیم کی تو آپ نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ ان کے لیے زمین اور پانی متعین کردیا جائے یا جو راشن انھیں ملتا رہا ہے وہی ملتا رہے، چنانچہ ان میں سے بعض نے زمین کاانتخاب کیا اور کچھ نے پیداوار کا۔ حضرت عائشہ ؓ نے زمین لینے کو پسند فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2328]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر والوں سے نصف پیداوار پر معاملہ کیا۔
رسول کریم ﷺ نے ازواج مطہرات کے لیے فی نفر سو وسق غلہ مقرر فرمایا تھا۔
یہی طریقہ عہد صدیقی میں رہا۔
مگر عہد فاروقی میں یہودیوں سے معاملہ ختم کر دیا گیا۔
اس لیے حضرت عمر فاروق ؓ نے ازواج مطہرات کو غلہ یا زمین ہر دو کا اختیار دے دیا تھا۔
ایک وسق چار من اور بارہ سیر وزن کے برابر ہوتا ہے۔
بذیل حدیث أن النبي صلی اللہ علیه وسلم عامل خیبر بشطر ما یخرج منها حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
هذا الحدیث هو عمدة من أجاز المزارعة و المخابرة لتقریر النبي صلی اللہ علیه وسلم کذلك و استمرارہ علی عهد أبي بکر إلی أن أجلاهم عمر کما سیأتي بعد أبواب استدل به علی جواز المساقات في النخل و الکرم و جمیع الشجر الذي من شانه أن یثمر بجزء معلوم یجعل للعامل من الثمرة و به قال الجمهور۔
(فتح الباري)
یعنی یہ حدیث عمدہ دلیل ہے اس کی جو مزارعت اور مخابرۃ کو جائز قرار دیتا ہے۔
اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے اسی طریق کار کو قائم رکھا اورحضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں بھی یہی دستور رہا۔
یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا۔
آپ نے بعد میں ان یہود کو خیبر سے جلا وطن کر دیا تھا۔
کھیتی کے علاوہ جملہ پھل دار درختوں میں بھی یہ معاملہ جائز قرار دیا گیا کہ کارکنان کے لیے مالک پھلوں کا کچھ حصہ مقرر کردیں۔
جمہور کا یہی فتوی ہے۔
اس میں کھیت اور باغ کے مالک کا بھی فائدہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے پیداوار کا ایک حصہ حاصل کرلیتا ہے اور محنت کرنے والے کے لیے بھی سہولت ہے کہ وہ زمینات سے اپنی محنت کے نتیجہ میں پیداوار لے لیتا ہے۔
محنت کش طبقہ کے لیے یہ وہ اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے پیش کرکے ایسے مسائل کو حل کر دیا ہے، توڑ پھوڑ، فتنہ فساد، تخریب کاری کا وہ راستہ جو آج کل بعض جماعتوں کی طرف سے محنت کش لوگوں کو ابھارنے کے لیے دنیا میں جاری ہے، یہ راستہ شرعاً بالکل غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2328
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3152
3152. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہود ونصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین پر غلبہ حاصل کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال دینے کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ وہ زمین یہودیوں کی تھی۔ جب آپ نے اس پر غلبہ پالیا تو وہ زمین رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام کی ہوگئی تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ انھیں وہاں اس شرط پر رہنے دیں کہ وہ زمین میں کام کریں گے اور انھیں پیداوار سے نصف دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمھیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔“ چنانچہ یہ لوگ وہاں رہے یہاں تک کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں تیماء اور اریحاء کی طرف بے دخل (جلاوطن) کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3152]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
والمراد بقوله لما ظهر علیه فتح أکثرها قبل أن یسأله الیهود و أن یصالحوہ فکانت للیهود کلها صالحهم علی أن یسلمو له الأرض کانت الأرض للہ ولرسوله و قال ابن المنیر أحادیث الباب مطابقة للترجمة إلاهذا الأخیر فلیس فیه للعطاء ذکر ولکن فیه ذکر جهات قدعلم من مکان اٰخرانها کانت جهات عطاء فبهذا الطریق تدخل تحت الترجمة واللہ أعلم (فتح الباري)
یعنی مراد یہ ہے کہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہود سے معاہدہ ہوگیا تھا۔
پہلے وہ سب زمینیں ان ہی کی تھیں۔
بعد میں غلبہ اسلام کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہوگئی تھیں۔
اس میں ایک طرح سے ان زمینوں کو بطور بخشش دینا بھی مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب سے اسی میں مطابقت ہے۔
اس حدیث سے معاملات کے بہت سے مسائل نکلتے ہیں جن کو حضرت امام نے جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2328
2328. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے (یہودسے) خیبر کامعاملہ نصف پیداوار پر طے کیا تھا جو اس زمین سے پیدا ہو، خواہ وہ کھجور ہو یا غلہ۔ آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سو وسق دیتے تھے، جن میں اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو ہوتے تھے۔ جب حضرت عمر ؓ نے خیبر کی زمین تقسیم کی تو آپ نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ ان کے لیے زمین اور پانی متعین کردیا جائے یا جو راشن انھیں ملتا رہا ہے وہی ملتا رہے، چنانچہ ان میں سے بعض نے زمین کاانتخاب کیا اور کچھ نے پیداوار کا۔ حضرت عائشہ ؓ نے زمین لینے کو پسند فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2328]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ مزارعت کے جواز پر یہ حدیث ایک عمدہ دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں سے نصف پیداوار پر معاملہ کیا، عمر بھر اسی طریق کار کو قائم رکھا۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں بھی اسی دستور پر عمل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے یہود کو ان کی سازشوں کی وجہ سے بے دخل کر دیا کیونکہ ان سے اس شرط پر معاملہ طے ہوا تھا کہ جب تک ہم چاہیں گے تم یہ کام کرو گے۔
حضرت عمر ؓ نے یہود کی جلا وطنی کے بعد خیبر کی زمین تقسیم کر دی۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ازواج مطہرات کو اَسی (80)
وسق کھجور ملتی تھی کیونکہ گھریلو ضروریات کے لیے اس کا استعمال زیادہ تھا اور بیس (20)
وسق جو ملتے تھے کیونکہ گھر میں روٹی کبھی کبھار پکائی جاتی تھی۔
حضرت عمر ؓ نے انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو حسب دشوار راشن لیتی رہیں اور چاہیں تو زمین اور پانی قبول کر لیں۔
(3)
واضح رہے کہ بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینے میں مالک کا بھی فائدہ ہے کہ وہ محنت کے بغیر پیداوار کا ایک حصہ حاصل کر لیتا ہے اور محنت کرنے والے کے لیے بھی سہولت ہے کہ وہ زمین سے اپنی محنت کے نتیجے میں پیداوار لے لیتا ہے۔
محنت کش انسان کے لیے یہ وہ اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے پیش کر کے ان کے جملہ مسائل کو حل کر دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2328
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2329
2329. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے خیبر کامعاملہ اس شرط پر طے کیا تھا کہ اس سے جو پھل اور اناج ہوگا یہودی اس کا نصف ادا کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2329]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اگر مزارعت کا معاملہ کرتے وقت سالوں کا تعین نہ کیا جائے تو یہ معاملہ جائز ہے یا ناجائز کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔
بعض ائمہ اسے ناجائز کہتے ہیں۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسا معاملہ جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی خیبر کی زمین بٹائی پر دیتے وقت یہود سے مدت کا تعین نہیں کیا تھا، تاہم مالک زمین یہ وضاحت کر دے کہ جب تک میں چاہوں گا، تمہیں زمین دوں گا تاکہ بعد میں جھگڑا پیدا نہ ہو۔
ایسی صورت میں مالک زمین کو اختیار ہو گا کہ قبل از وقت مزارع کو نوٹس دے کر اپنی زمین واپس لے۔
عرف عام میں بھی ایسے ہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی یہود سے فرمایا تھا کہ جب تک ہم چاہیں گے تمہیں برقرار رکھیں گے۔
(2)
بعض علماء کا خیال ہے کہ جب مدت کا تعین نہ کیا جائے تو کم از کم معاملہ ایک سال کے لیے ہو گا۔
اگر سال گزرنے کے بعد مالک نے زمین چھوڑ دینے کا مطالبہ نہ کیا اور نہ مزارع نے ازخود زمین چھوڑی تو یہ دلیل ہے کہ دونوں اپنے سابقہ عقد پر قائم ہیں، اسی طرح کئی سال تک یہ معاملہ چل سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2329
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2331
2331. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں محنت کریں اور کاشتکاری کریں، اس سے جو پیداوار ہوگی ان کو اس کا نصف ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2331]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ مزارعت کا معاملہ جیسے مسلمانوں میں ہو سکتا ہے اسی طرح مسلمان اور کافر میں بھی ہو سکتا ہے۔
چونکہ حدیث میں صرف یہود کا ذکر تھا، اس لیے عنوان میں انہی کو بیان کیا۔
بہرحال اسلام نے دنیاوی، تمدنی، معاشرتی اور اقتصادی معاملات میں تنگ نظری سے کام نہیں لیا بلکہ ایسے معاملات میں صرف انسانی مفاد کے پیش نظر وسعت نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔
(2)
اقتصادی معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کے لیے کوئی قدغن نہیں، البتہ عدل و انصاف کا مطالبہ مسلم اور کافر دونوں سے ہے۔
عدل و انصاف ہر جگہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔
دور حاضر میں مسلمان زمین کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں، بسا اوقات غیر مسلم لوگوں سے کاروباری تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔
اسلام نے ایسے معاملات میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2331
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2338
2338. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔“ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2338]
حدیث حاشیہ:
(1)
مزارعت کا معاملہ کرتے وقت جب مدت معین نہ ہو تو انصاف کا تقاضا ہے کہ فیصلہ باہمی رضا مندی سے ہو۔
اس میں کم از کم ایک سال کی مدت تو ہونی چاہیے تاکہ فصل کے درمیان کاشتکار کو بے دخل کر کے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، اسے فصل کی تیاری تک ضرور مہلت دینی چاہیے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نے یہود کو اس لیے بے دخل کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت تھی کہ یہود کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے، چنانچہ جب ان کی شرارتیں اور خباثتیں انتہا کو پہنچ گئیں تو حضرت عمر ؓ نے انہیں نکال باہر کیا، لہذا حضرت عمر کا یہ اقدام کسی پیشگی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں تھا۔
وقتی طور پر انہیں جلا وطن کرنے کا سبب یہ بنا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باغات کی دیکھ بھال کے لیے خیبر گئے تو ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔
حضرت عمر ؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا:
یہود کے علاوہ ہمارا وہاں کوئی دشمن نہیں، ہمارے وہی دشمن ہیں، لہذا ہم ان کے علاوہ اور کسی کو مہتم نہیں کرتے، اس لیے میری رائے ہے کہ اب انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2730) (3)
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں یہ الفاظ ہیں:
”میں تمہیں اس وقت تک رہنے دوں گا جب تک اللہ تمہیں رہنے دے گا۔
“ جبکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ہم تمہیں رکھیں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث، عنوان کے مطابق نہیں جیسا کہ بعض بزعم خویش اہل علم نے دعویٰ کیا ہے بلکہ یہ امام صاحب کی ذہانت اور جودتِ طبع کا نتیجہ ہے۔
دراصل امام بخاری نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جو انہوں نے کتاب الشروط (حدیث: 2730)
میں بیان کی ہے۔
اس میں یہ الفاظ ہیں:
”جب تک تمہیں اللہ رہنے دے گا۔
“ اور اس مقام پر بیان کردہ حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
”جب معاملہ مزارعت میں شرط کی جائے کہ جب چاہوں گا تجھے نکال دوں گا۔
“ بہرحال ہر عنوان میں ہر حدیث کو ملحوظ رکھ کر ایک کی دوسرے سے تفسیر کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مدت باہمی رضا مندی سے طے ہو گی، نیز یہود کا اخراج مشیت الٰہی کے مطابق تھا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2338
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2499
2499. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا علاقہ یہودیوں کو اس شرط پر کاشت کے لیے دیا کہ وہ اس میں محنت اور کھیتی باڑی کریں اور ان کے لیے اس زمین کی پیداوار کا نصف ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2499]
حدیث حاشیہ:
(1)
مشرکین سے مراد وہ کافر ہیں جو دارالاسلام میں امن لے کر رہتے ہیں اور حربی نہ ہوں کیونکہ مشرک حربی اور مسلمان کے درمیان شراکت نہیں ہو سکتی، حدیث میں ذمی کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں مشرک کا بیان ہوا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ایسے مشرک کو ذمی پر قیاس کیا ہے۔
مسلمان اور ذمی کے درمیان شراکت ہو سکتی ہے کیونکہ شراکت اجارے کی ایک قسم ہے اور ذمی کو اجرت پر رکھنا جائز ہے۔
مزارعت میں شراکت بالاتفاق جائز ہے، البتہ اس کے علاوہ دیگر کاروبار میں امام مالک ؒ اللہ ذمی کی شراکت ناجائز خیال کرتے ہیں کیونکہ ذمی کبھی شراب کی تجارت کر لیتا ہے اور کبھی سودی کاروبار کرنے لگتا ہے اور اس قسم کی تجارت ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسلمان کی نگرانی میں کاروبار کرے تو بالاتفاق جائز ہے کیونکہ اس میں ناجائز کاروبار کا خطرہ نہیں ہے۔
(فتح الباري: 167/5) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم سے معاہدۂ تجارت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ تجارت شرعی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ جن کافروں سے جنگ کا سلسلہ جاری ہے، ان سے شراکت کا معاملہ کرنا درست نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2720
2720. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں محنت اور کاشت کاری کریں، پھر جو کچھ اس سے پیداوار ہو گی ان کو اس کا نصف ملےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2720]
حدیث حاشیہ:
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ معاملات میں مناسب اور جائز شرط لگانا اور فریقین کا ان پر معاملہ کرنا درست ہے جیسا کہ پہلی حدیث کے مطابق مہاجرین کو پھلوں میں اس شرط پر شریک کیا گیا کہ وہ ان باغات میں محنت کریں گے اور یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی گئی کہ وہ اس میں کھیتی باڑی کریں، پھر پیداوار کے نصف میں شریک ہوں گے، یعنی یہ عقد مزارعہ تھا جس میں نصف پیداوار کی شرط طے ہوئی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2720
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2730
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ ”جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔“ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کسی سے مزارعت کا معاملہ کیا جائے تو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے مزارع کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جب اس سال کی فصل اٹھا لے گا تو عقد مزارعت ختم ہو گا، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین کا مالک مزارع سے یہ شرط کر لے کہ میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر دوں گا تو یہ شرط جائز ہے بشرطیکہ فریقین اسے بخوشی قبول کر لیں۔
(2)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے عجیب اسلوب اختیار کیا ہے۔
کتاب المزارعہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(إذ قال رب الارض:
أقرك ما أقرك الله)
”میں تمہیں ٹھہرائے رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا۔
“ اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
(نقركم بها علی ذلك ما شئنا)
”ہم جب تک چاہیں گے تمہیں ٹھہرائے رکھیں گے۔
“ اور یہاں عنوان یہ ہے:
(إذا شئت أخرجتك)
”میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
“ اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
(نقركم ما أقركم الله)
”جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا ہم تمہیں ٹھہرائیں گے۔
“ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے:
ایک یہ کہ یہودیوں کا سرزمین خیبر سے نکلنا اللہ نے ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، انہوں نے یہاں سے ضرور نکلنا تھا۔
دوسرا یہ کہ اگر پہلے دن ہی یہ شرط کر لی جائے کہ ہم جب چاہیں گے بے دخل کر سکیں گے اور فریقین رضامندی سے اس شرط کو قبول کر لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔
(3)
نیز اگر زمین کا مالک کاشتکار سے کوئی قصور یا خیانت دیکھے تو اسے بے دخل کرنے کا مجاز ہے اگرچہ مزارع اپنا کام شروع کر چکا ہو، مگر جو محنت اس نے کر رکھی ہے اس کا بدل ضرور دینا ہو گا۔
مقصد یہ ہے کہ تمدنی اور معاشرتی امور میں باہمی طور پر معاملات جن شرائط سے طے پا جائیں وہ اگر جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2730
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3152
3152. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہود ونصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین پر غلبہ حاصل کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال دینے کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ وہ زمین یہودیوں کی تھی۔ جب آپ نے اس پر غلبہ پالیا تو وہ زمین رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام کی ہوگئی تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ انھیں وہاں اس شرط پر رہنے دیں کہ وہ زمین میں کام کریں گے اور انھیں پیداوار سے نصف دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمھیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔“ چنانچہ یہ لوگ وہاں رہے یہاں تک کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں تیماء اور اریحاء کی طرف بے دخل (جلاوطن) کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3152]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا۔
”جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
“ (السنن الکبری للبیھقی: 115/6)
نیز یہودیوں کو فتنہ انگیزی اور آئے دن مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں کی وجہ سے یہودیوں کو وہاں سے نکالا۔
حضرت ابو بکر ؓ اپنی خلافت میں انھیں اس لیے نہ نکال سکے کہ وہ مرتدین کے خلاف جنگ وقتال میں مصروف رہے۔
اس لیے انھیں ان کے خلاف کاروائی کرنے کا وقت نہ مل سکا۔
2۔
واضح رہے کہ تیماء بلا وطی میں سمندر کے کنارے ایک گاؤں کا نام ہے اور اریحاء ارض شام میں ایک بستی کو کہا جاتا ہے۔
3۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ اعتراض بے جا ہے کیونکہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہودیوں سے یہ معاہدہ ہوگیا تھا چونکہ پہلے وہ تمام زمین یہودیوں کی تھی پھر وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہوگئی رسول اللہﷺنے وہاں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انھیں بٹائی پردے دی گویا آپ نےایک طرح سے ان زمینوں کو انھیں بخش دیا۔
باب سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
(فتح الباري: 306/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4248
4248. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اسے درست رکھیں اور اس میں کھیتی باڑی کریں تو اس کی پیداوار سے انہیں نصف ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4248]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر فتح کیا تو وہاں کی زمین وہاں کے لوگوں کے مطالبے پر ان کے پاس رہنے دی، تاہم ان کے ساتھ اس طرح سے معاملہ کیا کہ وہ اس میں کھیتی باڑی کریں اور انھیں اس کی پیداوار سے نصف ملے گا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے اہل خیبر سے یہ معاملہ بطور مزارعت کیاتھاجبکہ بعض آئمہ کے نزدیک معاملہ مزارعت جائز نہیں۔
اگرچہ مزارعت کی بعض صورتیں ناجائز ہیں مثلاً:
زمین کے کسی خاص ٹکڑے کی پیداوار مالک اپنے لیے خاص کر لے، چاہے دوسری زمین پیداوار دے یا نہ دے۔
ایسا کرنا شرعاًناجائز ہے تاہم ان مخصوص صورتوں کے ناجائز ہونے کی وجہ سے مطلق طور پر اس معاملے کو ناجائز کہنا درست نہیں کیونکہ متعدد صحابہ کرام ؓ سے قولی اور عملی طور پر اس کا جواز منقول ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4248