سنن نسائي
كتاب الوصايا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
7. بَابُ : إِذَا مَاتَ الْفَجْأَةَ هَلْ يُسْتَحَبُّ لأَهْلِهِ أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ
باب: کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 3680
أَنْبَأَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" خَرَجَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، وَحَضَرَتْ أُمَّهُ الْوَفَاةُ بِالْمَدِينَةِ، فَقِيلَ لَهَا: أَوْصِي، فَقَالَتْ: فِيمَ أُوصِي؟ الْمَالُ مَالُ سَعْدٍ، فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ سَعْدٌ، فَلَمَّا قَدِمَ سَعْدٌ ذُكِرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" هَلْ يَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ" , فَقَالَ سَعْدٌ: حَائِطُ كَذَا وَكَذَا صَدَقَةٌ عَنْهَا لِحَائِطٍ سَمَّاهُ".
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ مدینہ میں ان کی ماں کے انتقال کا وقت آ پہنچا، ان سے کہا گیا کہ وصیت کر دیں، تو انہوں نے کہا: میں کس چیز میں وصیت کروں؟ جو کچھ مال ہے وہ سعد کا ہے، سعد کے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، جب سعد رضی اللہ عنہ آ گئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں فائدہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: فلاں باغ ایسے اور ایسے ان کی طرف سے صدقہ ہے، اور باغ کا نام لیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3838، 4471)، موطا امام مالک/الأقضیة 41 (52)، مسند احمد (6/7) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3680 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3680
اردو حاشہ:
(1) پچھلی روایت میں ذکر تھا کہ ”ان کی جان اچانک نکل گئی۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بالکل بات چیت کا موقع نہیں ملا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر بیمار نہ رہیں بلکہ تھوڑی دیر ہی میں فوت ہوگئیں‘ ورنہ انہوں نے کچھ بات چیت کی ہے۔ یا ممکن ہے وفات کے قریب ان کی زبان بند ہوگئی ہو اور وہ کلام نہ کرسکی ہوں جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات چیت پہلے کی ہو۔
(2) ”ہاں“ معلوم ہوا میت کی طرف سے مالی صدقہ کیا جاسکتا ہے اور میت کو اس کا فائدہ ہوگا۔
(3) مالی صدقے کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاسکتا ہے مگر بدنی عبادات‘ مثلاً: قرا ء ت قرآن، نماز، وغیرہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ راجح کی بات یہی ہے کہ یہ میت کی طرف سے ادا نہیں کیے جاسکتے‘ نہ ایصال ثواب کی نیت ہی سے انہیں ادا کرنا جائز ہے‘ البتہ روزے کے بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے: [مَن ماتَ وعليه صيامٌ صامَ عنه وَليُّه] ”جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔“ اسی طرح اگر میت ترکہ چھوڑ گئی ہے اور اس کے ذمے حج تھا یا نذر وغیرہ تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے ادا کریں گے۔ ویسے اولاد کے بدنی ومالی ہر نیک کام کا اجر والدین کو ملتا رہتا ہے‘ خواہ وہ نیت کریں یا نہ کریں کیونکہ اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث: 3696ٌ)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3680