عن عبد الرحمن بن عوف قال: إني واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي فإذا بغلامين من الانصار حديثة اسنانها فتمنيت ان اكون بين اضلع منهما فغمزني احدهما فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم فما حاجتك إليه يا ابن اخي؟ قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا فتعجبت لذلك قال: وغمزني الآخر فقال لي مثلها فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس فقلت: الا تريان؟ هذا صاحبكما الذي تسالاني عنه قال: فابتدراه بسيفهما فضرباه حتى قتلاه ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه فقال: «ايكما قتله؟» فقال كل واحد منهما: انا قتله فقال: «هل مسحتما سيفيكما؟» فقالا: لا فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السيفين فقال: «كلاكما قتله» . وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح والرجلان: معاذ بن عمرو بن الجموح ومعاذ بن عفراء عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: إِنِّي وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَإِذَا بِغُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَة أسنانها فتمنيت أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ فَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ قَالَ: وَغَمَزَنِي الْآخَرُ فَقَالَ لِي مِثْلَهَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ؟ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِي عَنْهُ قَالَ: فابتدراه بسيفهما فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأخبراهُ فَقَالَ: «أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟» فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتله فَقَالَ: «هلْ مسحتُما سيفَيكما؟» فَقَالَا: لَا فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّيْفَيْنِ فَقَالَ: «كِلَاكُمَا قَتَلَهُ» . وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بن عَمْرِو بن الْجَمُوحِ وَالرَّجُلَانِ: مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ ومعاذ بن عفراء
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں غزوۂ بدر کے روز صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو میں انصار کے دو نو عمر لڑکوں کے درمیان تھا، میں نے تمنا کی کہ میں اِن دونوں سے زیادہ قوی آدمیوں کے درمیان ہوتا، اتنے میں اِن میں سے ایک نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: چچا جان! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے تمہیں اس سے کیا کام؟ اس نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں الگ نہیں ہوں گا حتی کہ ہم سے جلد اجل کو پہنچنے والا فوت ہو جائے۔ اس کی اس بات سے مجھے بہت تعجب ہوا، بیان کرتے ہیں، پھر دوسرے نے مجھے اشارہ کیا اور اس نے بھی مجھ سے وہی بات کی، اتنے میں میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور اس پر وار کیا حتی کہ انہوں نے اسے قتل کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ اِن دونوں میں سے ہر ایک نے کہا: میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھ کر فرمایا: ”تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ “ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجہل کے سازو سامان کے متعلق معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں فیصلہ فرمایا، جبکہ وہ دونوں آدمی (لڑکے) معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3141) و مسلم (42 / 1752)»