1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے مسائل
136. باب خروج النساء إِلى المساجد إِذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة
136. باب: بزمانہ امن خواتین کو مساجد میں جانے کی اجازت اور خوشبو لگا کر باہر نکلنے کے ممانعت
حدیث نمبر: 253
253 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلاَ يَمْنَعْهَا
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں (نماز پڑھنے کے لئے) جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو بلکہ اجازت دے دو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 253]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 116 باب استئذان المرأة زوجها في الخروج إلى المسجد وغيره»

حدیث نمبر: 254
254 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتِ امْرأَةٌ لِعُمَرَ تَشْهَدُ صَلاَةَ الصُّبْحِ وَالْعِشَاءِ فِي الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ، فَقِيلَ لَهَا: لِم تَخْرُجِينَ وَقَدْ تَعْلَمِينَ أَنَّ عُمَرَ يَكْرَهُ ذَلِكَ وَيَغَارُ قَالَتْ: وَمَا يَمْنَعَهُ أَنْ يَنْهَانِي قَالَ: يَمْنَعُهُ قَوْلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے کہا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھیں جو صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لئے مسجد میں آیا کرتی تھیں ان سے کہا گیا کہ باوجود اس علم کے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ س بات کو مکروہ جانتے ہیں اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کر دیتے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 254]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 11 كتاب الجمعة: 13 باب حدثنا عبد الله بن محمد»

حدیث نمبر: 255
255 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسَاجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے تو ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 255]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 163 باب انتظار الناس قيام الإمام العالم»

137. باب التوسط في القراءة في الصلاة الجهرية بين الجهر والإسرار إذا خاف من الجهر مفسدة
137. باب: جب فساد کا اندیشہ ہو تو جہری نماز میں بھی قراء ت درمیانی آواز سے پڑھی جائے
حدیث نمبر: 256
256 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسِ (وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا) قَالَ: أُنْزِلَتْ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ سَمِعَ الْمُشْرِكُونَ، فَسبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ؛ فَقَالَ اللهُ تَعَالَى (وَلا تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا) لاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ حَتَّى يَسْمعَ الْمُشْرِكُونَ، وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ فَلاَ تُسْمِعُهُمْ (وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً) أَسْمِعْهُمْ وَلاَ تَجْهَرْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کی آیت مبارکہ ولا تجھر بصلاتک و لا تخافت بہا (بنی اسرائیل:۱۱۰) کے بارے میں بیان کیا کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے جب آپ نماز میں آواز بلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے (اللہ) کو اور اس کے لانے والے (جبریل) کو گالی دیتے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی نماز میں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کرو کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کرو کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کرو مطلب یہ کہ اتنی آواز سے پڑھیں کہ آپ کے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 256]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 34 باب قوله تعالى (أنزله بعلمه والملائكة يشهدون»

138. باب الاستماع للقراءة
138. باب: قراء ت سننے کا بیان
حدیث نمبر: 257
257 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ (لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ) قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللهُ الآيَةَ الَّتِي فِي (لاَ أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) (لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَه وَقُرْآنَهُ) قَالَ: عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ، وَقُرْآنَهُ (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه) عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ قَالَ: فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللهُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اللہ تعالیٰ کے ارشاد آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لئے اس پر زبان نہ ہلایا کریں (القیامہ۱۶) کے متعلق بتلایا کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ پر وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گذرتا یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورہ میں ہے آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لئے اس پر زبان نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا یعنی قرآن آپ کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں پھر اس کا بیان کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 257]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 75 سورة القيامة: 2 باب قوله (فإِذا قرأناه»

حدیث نمبر: 258
258 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى (لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ) قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا وَقَالَ سَعِيدٌ (هُوَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ رَاوِي الْحَدِيثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ): أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى (لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ) قَالَ جَمْعُهُ لَهُ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ، (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ ذَلِكَ، إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأَهُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکلام الٰہی لاتحرک الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لئے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے سیّدنا ابن عباس نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے سعید (سیّدنا سعید بن جبیر جو کہ یہ حدیث سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں) کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہماکو میں نے ہلاتے دیکھا پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے (سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا) پھر یہ آیات اتریں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلاؤ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ (القیامہ۱۷۔۱۶)سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں یعنی قرآن آپ کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو سیّدنا ابن عباس فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہیں اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے پھر یقینا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھیں (یعنی اس کو محفوظ کر سکیں) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 258]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحي: 4 باب حدثنا موسى بن إسماعيل»

139. باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءَة على الجن
139. باب: نماز فجر میں اور جنات کے روبرو بلند آواز سے قرآن پڑھنے کا حکم
حدیث نمبر: 259
259 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا مَا لَكُمْ قَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ قَالُوا: مَا حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلاَّ شَيْءٌ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَانْظُرُوا مَا هذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ فَانْصَرَفَ أُولئِكَ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلاَةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ؛ فَقَالُوا: هذَا وَاللهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَهُنَالِكَ حِينَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ؛ فَقَالُوا: (يَا قوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إلى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا) فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ) وَإِنِّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے (شہاب ثاقب) پھینکے جانے لگے تھے تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی انہوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور (جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا باعث ہوا ہے وجہ معلوم کرنے کے لئے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے پھر کہا خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (الجن۲۱) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت (سورہ جن) نازل ہوئی (آپ کہئے کہ مجھے وحی کا ذریعہ بتایا گیا ہے) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 259]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 105 باب الجهر بقراءة صلاة الفجر»

140. باب القراءة في الظهر والعصر
140. باب: ظہر اور عصر میں قراء ت کا بیان
حدیث نمبر: 260
260 صحيح حديث أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ النَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، يُطَوِّلُ فِي الأُولَى وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانيَةِ، وَيُسْمِعُ الآيَة أَحْيانًا، وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الْعصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الأُولَى، وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَكْعَةِ الأُولَى مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ
سیّدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور ہر رکعت میں ایک سورت پڑھتے تھے ان میں لمبی قرات کرتے تھے لیکن آخری دو رکعات ہلکی پڑھاتے کبھی کبھی کوئی آیت ہم کو بھی سنا دیا کرتے تھے عصر میں آپ سورہ فاتحہ اور دیگر سورتیں پڑھتے تھے اس کی بھی پہلی دو رکعات لمبی پڑھتے اسی طرح صبح کی نماز کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری ہلکی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 260]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 19 كتاب الأذان: 96 باب القراءة في الظهر»

حدیث نمبر: 261
261 صحيح حديث سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رضي الله عنه، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْه، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحقَ إِنَّ هؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِن تُصَلِّي قَالَ أَبُو إِسْحقَ: أَمَّا أَنَا وَاللهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ، وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيينِ قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحقَ فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلاً، أَوْ رِجَالاً، إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ، وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلاَّ سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ؛ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ، يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ؛ فَقَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّة قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللهِ لأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ فَكَانَ بَعْدُ، إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْد قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ (أَحَدُ رُوَاةِ هذَا الْحَدِيثَ) فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ
سیّدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ نے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اس لئے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے اس پر آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قرات) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعات ہلکی پڑھاتا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو اسحاق مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی پھر آپ نے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابو سعد تھی کھڑا ہوا اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنئے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ خدا کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں اے اللہ اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لئے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بد حال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد کی بد دعا لگ گئی عبدالملک (راویان حدیث میں سے ایک) نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 95 باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها»

141. باب القراءة في الصبح والمغرب
141. باب: فجر اور مغرب کی نماز میں قرات کا بیان
حدیث نمبر: 262
262 صحيح حديث أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَأَحَدُنَا يَعْرِفُ جَلِيسَهُ [ص:96] وَيَقْرأُ فِيهَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ، وَيُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَأَحَدُنَا يَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ ثُمَّ يَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَلاَ يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ
سیّدنا ابوبرزہ (فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب ہم اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتے تھے صبح کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے اور آپ ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا اور عصر کی نماز اس وقت کہ ہم مدینہ منورہ کی آخری حد تک (نماز پڑھنے کے بعد) جاتے لیکن سورج اب بھی تیز رہتا تھا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 11 باب وقت الظهر عند الزوال»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next