1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے مسائل
140. باب القراءة في الظهر والعصر
140. باب: ظہر اور عصر میں قراء ت کا بیان
حدیث نمبر: 261
261 صحيح حديث سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رضي الله عنه، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْه، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحقَ إِنَّ هؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِن تُصَلِّي قَالَ أَبُو إِسْحقَ: أَمَّا أَنَا وَاللهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ، وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيينِ قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحقَ فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلاً، أَوْ رِجَالاً، إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ، وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلاَّ سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ؛ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ، يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ؛ فَقَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّة قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللهِ لأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ فَكَانَ بَعْدُ، إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْد قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ (أَحَدُ رُوَاةِ هذَا الْحَدِيثَ) فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ
سیّدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ نے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اس لئے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے اس پر آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قرات) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعات ہلکی پڑھاتا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو اسحاق مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی پھر آپ نے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابو سعد تھی کھڑا ہوا اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنئے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ خدا کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں اے اللہ اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لئے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بد حال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد کی بد دعا لگ گئی عبدالملک (راویان حدیث میں سے ایک) نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 95 باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها»