1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے مسائل
137. باب التوسط في القراءة في الصلاة الجهرية بين الجهر والإسرار إذا خاف من الجهر مفسدة
137. باب: جب فساد کا اندیشہ ہو تو جہری نماز میں بھی قراء ت درمیانی آواز سے پڑھی جائے
حدیث نمبر: 256
256 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسِ (وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا) قَالَ: أُنْزِلَتْ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ سَمِعَ الْمُشْرِكُونَ، فَسبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ؛ فَقَالَ اللهُ تَعَالَى (وَلا تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا) لاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ حَتَّى يَسْمعَ الْمُشْرِكُونَ، وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ فَلاَ تُسْمِعُهُمْ (وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً) أَسْمِعْهُمْ وَلاَ تَجْهَرْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کی آیت مبارکہ ولا تجھر بصلاتک و لا تخافت بہا (بنی اسرائیل:۱۱۰) کے بارے میں بیان کیا کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے جب آپ نماز میں آواز بلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے (اللہ) کو اور اس کے لانے والے (جبریل) کو گالی دیتے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی نماز میں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کرو کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کرو کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کرو مطلب یہ کہ اتنی آواز سے پڑھیں کہ آپ کے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 256]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 34 باب قوله تعالى (أنزله بعلمه والملائكة يشهدون»