سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے (شہاب ثاقب) پھینکے جانے لگے تھے تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی انہوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور (جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا باعث ہوا ہے وجہ معلوم کرنے کے لئے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے پھر کہا خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (الجن۲۱) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت (سورہ جن) نازل ہوئی (آپ کہئے کہ مجھے وحی کا ذریعہ بتایا گیا ہے) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 259]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 105 باب الجهر بقراءة صلاة الفجر»