1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے مسائل
141. باب القراءة في الصبح والمغرب
141. باب: فجر اور مغرب کی نماز میں قرات کا بیان
حدیث نمبر: 262
262 صحيح حديث أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَأَحَدُنَا يَعْرِفُ جَلِيسَهُ [ص:96] وَيَقْرأُ فِيهَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ، وَيُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَأَحَدُنَا يَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ ثُمَّ يَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَلاَ يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ
سیّدنا ابوبرزہ (فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب ہم اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتے تھے صبح کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے اور آپ ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا اور عصر کی نماز اس وقت کہ ہم مدینہ منورہ کی آخری حد تک (نماز پڑھنے کے بعد) جاتے لیکن سورج اب بھی تیز رہتا تھا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 11 باب وقت الظهر عند الزوال»

وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ پنی کنیت ابو برزہ اسلمی سے مشہور معروف ہیں۔ آغاز میں ہی اسلام قبول کیا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر عبدالعزیٰ ابن خطل کو جو کعبہ کے پردہ کے نیچے تھا، انہوں نے قتل کیا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے۔ پہلے بصرہ میں رہے پھر خراسان جا کر مرو میں رہے، پھر بصرہ واپس آگئے تھے۔ یتیموں، بیواؤں اور مساکین پر بکثرت صدقہ کیا کرتے تھے رات کا قیام کثرت سے کرتے تھے حتیٰ کہ بیوی کو بھی بیدار کر دیا کرتے تھے۔ ۶۴ہجری کو وفات پائی۔