اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
321. باب إِعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام وتصبر من قوى إِيمانه
321. باب: تالیف قلب کے لیے دینے اور قوی الایمان والوں کے صبر کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 632
632 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ قَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ فَطَفِقَ يُعْطِي رِجَالاً مِنْ قُرَيْشٍ الْمَائَةَ مِنَ الإبِلِ؛ فَقَالوا: يَغْفِرُ اللهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ قَالَ أَنَسٌ: فَحُدِّثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالتِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ أَحَدًا غَيْرَهُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا كَانَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ قَالَ لَهُ فُقَهَاؤُهُمْ: أَمَّا ذَوو آرَائِنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَلَمْ يَقُولوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قرَيْشًا وَيَتْرُكُ الأَنْصَارَ، وَسُيُوفُنا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لأُعْطِي رِجَالاً حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحالِكُمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَاللهِ مَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ، خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ رَضِينَا فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبرُوا حَتَّى تَلْقَوُا اللهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحَوْضِ قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ
سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلہ ہوازن کے اموال میں سے غنیمت دی اور آپ قریش کے بعض آدمیوں کو (تالیف قلب کی غرض سے) سو سو اونٹ دینے لگے تو بعض انصاری لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کرے آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ان کا خون ابھی تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور انہیں چمڑے کے ایک ڈیرے میں جمع کیا ان کے سوا کسی دوسرے صحابی کو آپ نے نہیں بلایا جب سب انصاری لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کے بارے میں جو بات مجھے معلوم ہوئی وہ کہاں تک صحیح ہے؟ انصار کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں جو عقل والے ہیں وہ تو کوئی ایسی بات زبان پر نہیں لائے ہیں ہاں چند نو عمر لڑکے ہیں انہوں نے ہی یہ کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کرے آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کے خون ٹپک رہے ہیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ ابھی گذرا ہی ہے (اور ان کو دے کر ان کا دل ملاتا ہوں) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب دوسرے لوگ مال و دولت لے کر واپس جا رہے ہوں گے تو تم لوگ اپنے گھروں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر واپس جا رہے ہو گے اللہ کی قسم تمہارے ساتھ جو کچھ واپس جا رہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو دوسرے لوگ اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے سب انصاریوں نے کہا بے شک یا رسول اللہ ہم اس پر راضی اور خوش ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ تم پر دوسرے لوگوں کو مقدم کیا جائے گا اس وقت تم صبر کرنا (دنگا فساد نہ کرنا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملو اور اس کے رسول سے حوض کوثر پر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا پھر ہم سے صبر نہ ہو سکا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 632]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 19 باب ما كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم وغيرهم من الخمس ونحوه»

حدیث نمبر: 633
633 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارَ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ قَالوا: لاَ، إِلاَّ ابْنُ أُخْتٍ لَنَا؛ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خاص طور سے ایک مرتبہ بلایا پھر ان سے پوچھا کیا تم لوگوں میں کوئی ایسا شخص بھی رہتا ہے جس کا تعلق تمہارے قبیلے سے نہ ہو انہوں نے عرض کیا کہ صرف ہمارا ایک بھانجا ایسا ہے آپ نے فرمایا کہ بھانجا بھی اسی قوم میں داخل ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 633]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 14 باب ابن أخت القوم ومولى القوم منهم»

حدیث نمبر: 634
634 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، وأَعْطَى قُرَيْشًا: وَاللهِ إِنَّ هذَا لَهُوَ الْعَجَبُ، إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَاءِ قُرَيْشٍ، وَغَنَائِمُنَا تَرَدُّ عَلَيْهِمْ فَبَلَغَ ذلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا الأَنْصَارَ قَالَ، فَقَالَ: مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ وَكَانُوا لاَ يَكْذِبُونَ فَقَالُوا: هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ قَالَ: أَوَ لاَ تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلَى بيُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُيُوتِكُمْ لَوْ سَلَكَتِ الأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهمْ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو غزوہ حنین کی غنیمت کا سارا مال دے دیا تو بعض نوجوان انصاریوں نے کہا (اللہ کی قسم) یہ تو عجیب بات ہے ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے اور ہمارا حاصل کیا ہوا مال غنیمت صرف انہیں دیا جا رہا ہے اس کی خبر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے انصار کو بلایا سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو خبر مجھے ملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے انہوں نے عرض کر دیا کہ آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس سے خوش اور راضی نہیں ہو کہ جب سب لوگ غنیمت کا مال لے کر اپنے گھروں کو واپس ہوں گے تو تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے اپنے گھروں کو جاؤ گے؟ انصار جس نالے یا گھاٹی میں چلیں گے تو میں بھی اسی نالے یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 634]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 1 باب مناقب الأنصار»

حدیث نمبر: 635
635 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ الْتَقَى هَوَازِنُ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلاَفٍ وَالطُّلَقَاءُ فَأَدْبَرُوا قَالَ: يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ لَبَّيْكَ، نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْكَ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَعْطَى الطُّلَقَاءَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَلَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالُوا؛ فَدَعَاهُمْ فَأَدْخَلَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لاَخْتَرْتُ شِعْبَ الأَنْصَارِ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شروع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار فوج تھی قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تھا پھر سب نے پیٹھ پھیر لی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اے انصاریو انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں یا رسول اللہ آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے ہم حاضر ہیں ہم آپ کے سامنے ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر گئے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کو شکست ہو گئی جن لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد چھوڑ دیا تھا اور مہاجرین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا لیکن انصار کو کچھ نہیں دیا اس پر انصار نے اپنے غم کا اظہار کیا تو آپ نے بلایا اور ایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 635]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف»

حدیث نمبر: 636
636 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قَلُوبُهُمْ وَلَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا؛ فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا، إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلاَّلاً فَهَدَاكُمُ اللهُ بِي، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمُ اللهُ بِي، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ الله بِي كلَّمَا قَالَ شَيْئًا، قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ؛ قَالَ: مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا، قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ قَالَ: لَوْ شِئتُمْ قُلْتُمْ: جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا، أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ لَوْلاَ الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرءًا مِنَ الأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا، الأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ
سیّدناعبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو دیا ہمیں کیوں نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نا اتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا آپ کے ایک ایک جملے پر انصارکہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کون سی چیز مانع رہی؟ بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو تو مجھ سے اس اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں گے تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے جا رہے ہو گے؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی بن جاتا لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں میں تو انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا انصار اس کپڑے کی طرح ہیں یعنی استر جو ہمیشہ جسم سے لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے کی طرح ہیں یعنی تم لوگ (انصار) دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھے حوض پر آ ملو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 636]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف»

حدیث نمبر: 637
637 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ آثَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسًا فِي الْقِسْمَةِ فَأَعْطَى الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ الْعَرَبِ، فَآثَرَهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْقِسْمَةِ؛ قَالَ رَجُلٌ: وَاللهِ إِنَّ هذِهِ الْقِسْمَةَ مَا عُدِلَ فِيهَا، وَمَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللهِ فَقُلْتُ: وَاللهِ لأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتهُ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: فَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ يَعْدِلِ اللهُ وَرَسُولُهُ رَحِمَ اللهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هذَا فَصَبَرَ
سیّدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غنیمت کی) تقسیم میں بعض لوگوں کو زیادہ دیا جیسے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دئیے اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو دئیے اور کئی عرب کے اشراف لوگوں کو اسی طرح تقسیم میں زیادہ دیا اس پر ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم اس تقسیم میں نہ تو عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال ہوا میں نے کہا واللہ اس کی خبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دوں گا چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی خبر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول بھی عدل نہ کرے تو پھر کون عدل کرے گا؟ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ ان کو لوگوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 637]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 19 باب ما كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم وغيرهم من الخمس ونحوه»