جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص (ذوالخویصرہ) نے آپ سے کہا انصاف سے کام لیجئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو تو بد بخت ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 638]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 15 باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين»
سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنو نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لئے انہیں دیتا ہوں (کیوں کہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں کلے پھلے ہوئے تھے پیشانی بھی اٹھی ہوئی تھی داڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا اس نے کہا اے محمد اللہ سے ڈرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانتدار بنا کر بھیجا ہے کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی میرا خیال ہے کہ یہ سیّدناخالد بن ولید تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اس کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 639]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 6 كتاب الأنبياء: 6 باب قول الله تعالى (وإلى عاد أخاهم هودا»
وضاحت: جس بد بخت گروہ کا یہاں ذکر ہوا ہے یہ خارجی تھے جنہوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا۔ ان پر کفر کا فتوٰی لگایا۔ خود اتباع قرآن کا دعوٰی کیا۔آخر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے گئے۔(راز)
سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یمن سے سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئیے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا عیینہ بن بدر اقرع بن حابس زید بن خیل اور چوتھے علقمہ تھے یا عامر بن طفیل آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے راوی نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں دونوں رخسارپھولے ہوئے تھے پیشانی بھی ابھری ہوئی ہوئی تھی گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا تہبند اٹھائے ہوئے تھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ اللہ سے ڈرئیے آپ نے فرمایا افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا سیّدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر سیّدناخالد نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا آپ نے فرمایا مجھے اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں راوی نے کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے (سیّدناابو سعید کہتے ہیں کہ) اور میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا اگر میں ان کے دور میں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو بالکل قتل کر ڈالوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 640]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 61 باب بعث علي ابن أبي طالب عليه السلام وخالد بن الوليد رضي الله عنه إلى اليمن قبل حجة الوداع»
سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں ایک قوم ایسی پیدا ہو گی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہیں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلہ میں تمہیں اپنا عمل حقیر نظر آئے گا اور وہ قرآن مجید کی تلاوت بھی کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے (اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ کہ تیر چلانے والا) تیر کے پھل میں دیکھتا ہے تو اس میں بھی (شکار کے خون وغیرہ کا) کوئی اثر نظر نہیں آتا اس سے اوپر دیکھتا ہے وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا تیر کے پر کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا البتہ سوفار میں کچھ شبہ گذرتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 641]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائِل القرآن: 36 باب من رايا بقراءة أو تأكل به أو فخر به»
وضاحت: سو فار تیر کا وہ مقام ہے جو چلہ سے لگایا جاتا ہے۔ ان سے مراد خوارج ہیں۔ جنہوں نے خلیفہ راشد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ بظاہر بڑا دین داری کا دم بھرتے تھے لیکن دل میں ذرا بھی نور ایمان نہ تھا۔(راز)
سیّدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ انصاف سے کام لیجئے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا نبی اکرم اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں (بظاہر) حقیر سمجھو گے اور تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے گا تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو جڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا اس کے نضی (نضی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے گا تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے سیّدناابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کی طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا میں نے اسے دیکھا تو اس کا سارا حلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے عین مطابق تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»