سیّدناعبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو دیا ہمیں کیوں نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نا اتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا آپ کے ایک ایک جملے پر انصارکہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کون سی چیز مانع رہی؟ بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو تو مجھ سے اس اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں گے تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے جا رہے ہو گے؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی بن جاتا لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں میں تو انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا انصار اس کپڑے کی طرح ہیں یعنی استر جو ہمیشہ جسم سے لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے کی طرح ہیں یعنی تم لوگ (انصار) دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھے حوض پر آ ملو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 636]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف»