(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يدخل اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، ثم يقول الله تعالى: اخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، فيخرجون منها قد اسودوا، فيلقون في نهر الحيا او الحياة شك مالك فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل، الم تر انها تخرج صفراء ملتوية"، قال وهيب: حدثنا عمرو الحياة، وقال: خردل من خير.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَيُخْرَجُونَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرِ الْحَيَا أَوِ الْحَيَاةِ شَكَّ مَالِكٌ فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي جَانِبِ السَّيْلِ، أَلَمْ تَرَ أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً"، قَالَ وُهَيْبٌ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو الْحَيَاةِ، وَقَالَ: خَرْدَلٍ مِنْ خَيْرٍ.
ہم سے اسماعیل نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ان سے مالک نے، وہ عمرو بن یحییٰ المازنی سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب (ایسے لوگ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اوپر کے راوی نے کون سا لفظ استعمال کیا) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔ وہیب نے کہا کہ ہم سے عمرو نے ( «حياء» کی بجائے) «حياة»، اور ( «خردل من ايمان») کی بجائے ( «خردل من خير») کا لفظ بیان کیا۔
Narrated Abu Said Al-Khudri: The Prophet said, "When the people of Paradise will enter Paradise and the people of Hell will go to Hell, Allah will order those who have had faith equal to the weight of a grain of mustard seed to be taken out from Hell. So they will be taken out but (by then) they will be blackened (charred). Then they will be put in the river of Haya' (rain) or Hayat (life) (the Narrator is in doubt as to which is the right term), and they will revive like a grain that grows near the bank of a flood channel. Don't you see that it comes out yellow and twisted"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 22
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن شعيرة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن برة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن ذرة من خير"، قال ابو عبد الله: قال ابان: حدثنا قتادة، حدثنا انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، من إيمان مكان من خير.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ"، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ أَبَانُ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ إِيمَانٍ مَكَانَ مِنْ خَيْرٍ.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے قتادہ نے انس کے واسطے سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے «لا إله إلا الله» کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص (بھی) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ (بھی) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ انس رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے «خير» کی جگہ «ايمان» کا لفظ نقل کیا ہے۔
Narrated Anas: The Prophet said, "Whoever said "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 43
(مرفوع) حدثني إسحاق بن نصر، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا ابو حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في دعوة فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها نهسة، وقال: انا سيد القوم يوم القيامة هل تدرون بمن يجمع الله الاولين والآخرين في صعيد واحد فيبصرهم الناظر ويسمعهم الداعي وتدنو منهم الشمس، فيقول: بعض الناس الا ترون إلى ما انتم فيه إلى ما بلغكم الا تنظرون إلى من يشفع لكم إلى ربكم، فيقول: بعض الناس ابوكم آدم فياتونه، فيقولون: يا آدم انت ابو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وامر الملائكة فسجدوا لك واسكنك الجنة الا تشفع لنا إلى ربك الا ترى ما نحن فيه وما بلغنا، فيقول: ربي غضب غضبا لم يغضب قبله مثله، ولا يغضب بعده مثله ونهاني عن الشجرة فعصيته نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري اذهبوا إلى نوح فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح انت اول الرسل إلى اهل الارض وسماك الله عبدا شكورا اما ترى إلى ما نحن فيه الا ترى إلى ما بلغنا الا تشفع لنا إلى ربك، فيقول: ربي غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولا يغضب بعده مثله نفسي نفسي ائتوا النبي صلى الله عليه وسلم فياتوني فاسجد تحت العرش، فيقال: يا محمد ارفع راسك واشفع تشفع وسل تعطه، قال محمد بن عبيد: لا احفظ سائره".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ بِمَنْ يَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ إِلَى مَا بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ وَأَسْكَنَكَ الْجَنَّةَ أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ: لَا أَحْفَظُ سَائِرَهُ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”عبدشکور“ کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ (نفسی نفسی) تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ ساری حدیث میں یاد نہ رکھ سکا۔
Narrated Abu Huraira: We were in the company of the Prophet at a banquet and a cooked (mutton) forearm was set before him, and he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know how Allah will gather all the first and the last (people) in one level place where an observer will be able to see (all) of them and they will be able to hear the announcer, and the sun will come near to them. Some People will say: Don't you see, in what condition you are and the state to which you have reached? Why don't you look for a person who can intercede for you with your Lord? Some people will say: Appeal to your father, Adam.' They will go to him and say: 'O Adam! You are the father of all mankind, and Allah created you with His Own Hands, and ordered the angels to prostrate for you, and made you live in Paradise. Will you not intercede for us with your Lord? Don't you see in what (miserable) state we are, and to what condition we have reached?' On that Adam will reply, 'My Lord is so angry as He has never been before and will never be in the future; (besides), He forbade me (to eat from) the tree, but I disobeyed (Him), (I am worried about) myself! Myself! Go to somebody else; go to Noah.' They will go to Noah and say; 'O Noah! You are the first amongst the messengers of Allah to the people of the earth, and Allah named you a thankful slave. Don't you see in what a (miserable) state we are and to what condition we have reached? Will you not intercede for us with your Lord? Noah will reply: 'Today my Lord has become so angry as he had never been before and will never be in the future Myself! Myself! Go to the Prophet (Muhammad). The people will come to me, and I will prostrate myself underneath Allah's Throne. Then I will be addressed: 'O Muhammad! Raise your head; intercede, for your intercession will be accepted, and ask (for anything). for you will be given. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 556
(مرفوع) باب حدثنا إسحاق بن إبراهيم بن نصر، حدثنا ابو اسامة، عن ابي حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم يوما بلحم، فقال:" إن الله يجمع يوم القيامة الاولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فذكر حديث الشفاعة فياتون إبراهيم، فيقولون: انت نبي الله وخليله من الارض اشفع لنا إلى ربك، فيقول: فذكر كذباته نفسي نفسي اذهبوا إلى موسى، تابعه انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) بَاب حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَجْمَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيُنْفِذُهُمُ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَذَكَرَ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنَ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: فَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، تَابَعَهُ أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا (کیونکہ یہ میدان ہموار ہو گا، زمین کی طرح گول نہ ہو گا) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے، پھر انہیں اپنے جھوٹ (توریہ) یاد آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے۔ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
Narrated Abu Huraira: One day some meat was given to the Prophet and he said, "On the Day of Resurrection Allah will gather all the first and the last (people) in one plain, and the voice of the announcer will reach all of them, and one will be able to see them all, and the sun will come closer to them." (The narrator then mentioned the narration of intercession): "The people will go to Abraham and say: 'You are Allah's Prophet and His Khalil on the earth. Will you intercede for us with your Lord?' Abraham will then remember his lies and say: 'Myself! Myself! Go to Moses."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 581
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام , حدثنا قتادة , عن انس رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وقال لي خليفة ,حدثنا يزيد بن زريع , حدثنا سعيد , عن قتادة , عن انس رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يجتمع المؤمنون يوم القيامة، فيقولون: لو استشفعنا إلى ربنا فياتون آدم فيقولون: انت ابو الناس خلقك الله بيده واسجد لك ملائكته، وعلمك اسماء كل شيء، فاشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا، فيقول: لست هناكم ويذكر ذنبه، فيستحي ائتوا نوحا، فإنه اول رسول بعثه الله إلى اهل الارض، فياتونه، فيقول: لست هناكم ويذكر سؤاله ربه ما ليس له به علم فيستحي، فيقول: ائتوا خليل الرحمن، فياتونه، فيقول: لست هناكم ائتوا موسى عبدا كلمه الله، واعطاه التوراة، فياتونه، فيقول: لست هناكم، ويذكر قتل النفس بغير نفس فيستحي من ربه، فيقول: ائتوا عيسى عبد الله ورسوله، وكلمة الله وروحه، فيقول: لست هناكم ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، فياتوني، فانطلق حتى استاذن على ربي، فيؤذن لي، فإذا رايت ربي وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله، ثم يقال: ارفع راسك وسل تعطه، وقل يسمع، واشفع تشفع، فارفع راسي فاحمده بتحميد يعلمنيه، ثم اشفع فيحد لي حدا، فادخلهم الجنة، ثم اعود إليه فإذا رايت ربي مثله، ثم اشفع فيحد لي حدا، فادخلهم الجنة، ثم اعود الرابعة، فاقول: ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود، قال ابو عبد الله: إلا من حبسه القرآن يعني قول الله تعالى خالدين فيها سورة البقرة آية 162.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ ,حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ذَنْبَهُ، فَيَسْتَحِي ائْتُوا نُوحًا، فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ سُؤَالَهُ رَبَّهُ مَا لَيْسَ لَهُ بِهِ عِلْمٌ فَيَسْتَحِي، فَيَقُولُ: ائْتُوا خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمُ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللَّهُ، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَيْرِ نَفْسٍ فَيَسْتَحِي مِنْ رَبِّهِ، فَيَقُولُ: ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ، وَكَلِمَةَ اللَّهِ وَرُوحَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمُ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي، فَأَنْطَلِقُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنَ لِي، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي مِثْلَهُ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَقُولُ: مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ يَعْنِي قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى خَالِدِينَ فِيهَا سورة البقرة آية 162.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے «خالدين فيها» کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
Narrated Anas: The Prophet said, "On the Day of Resurrection the Believers will assemble and say, 'Let us ask somebody to intercede for us with our Lord.' So they will go to Adam and say, 'You are the father of all the people, and Allah created you with His Own Hands, and ordered the angels to prostrate to you, and taught you the names of all things; so please intercede for us with your Lord, so that He may relieve us from this place of ours.' Adam will say, 'I am not fit for this (i.e. intercession for you).' Then Adam will remember his sin and feel ashamed thereof. He will say, 'Go to Noah, for he was the first Apostle, Allah sent to the inhabitants of the earth.' They will go to him and Noah will say, 'I am not fit for this undertaking.' He will remember his appeal to his Lord to do what he had no knowledge of, then he will feel ashamed thereof and will say, 'Go to the Khalil--r-Rahman (i.e. Abraham).' They will go to him and he will say, 'I am not fit for this undertaking. Go to Moses, the slave to whom Allah spoke (directly) and gave him the Torah .' So they will go to him and he will say, 'I am not fit for this undertaking.' and he will mention (his) killing a person who was not a killer, and so he will feel ashamed thereof before his Lord, and he will say, 'Go to Jesus, Allah's Slave, His Apostle and Allah's Word and a Spirit coming from Him. Jesus will say, 'I am not fit for this undertaking, go to Muhammad the Slave of Allah whose past and future sins were forgiven by Allah.' So they will come to me and I will proceed till I will ask my Lord's Permission and I will be given permission. When I see my Lord, I will fall down in Prostration and He will let me remain in that state as long as He wishes and then I will be addressed.' (Muhammad!) Raise your head. Ask, and your request will be granted; say, and your saying will be listened to; intercede, and your intercession will be accepted.' I will raise my head and praise Allah with a saying (i.e. invocation) He will teach me, and then I will intercede. He will fix a limit for me (to intercede for) whom I will admit into Paradise. Then I will come back again to Allah, and when I see my Lord, the same thing will happen to me. And then I will intercede and Allah will fix a limit for me to intercede whom I will let into Paradise, then I will come back for the third time; and then I will come back for the fourth time, and will say, 'None remains in Hell but those whom the Qur'an has imprisoned (in Hell) and who have been destined to an eternal stay in Hell.' " (The compiler) Abu `Abdullah said: 'But those whom the Qur'an has imprisoned in Hell,' refers to the Statement of Allah: "They will dwell therein forever." (16.29)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 3
(قدسي) حدثني محمد بن عبد العزيز، حدثنا ابو عمر حفص بن ميسرة، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، النبي صلى الله عليه وسلم، قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" نعم، هل تضارون في رؤية الشمس بالظهيرة، ضوء ليس فيها سحاب؟" قالوا: لا، قال:" وهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر، ضوء ليس فيها سحاب؟" قالوا: لا، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما تضارون في رؤية الله عز وجل يوم القيامة، إلا كما تضارون في رؤية احدهما، إذا كان يوم القيامة اذن مؤذن، تتبع كل امة ما كانت تعبد، فلا يبقى من كان يعبد غير الله من الاصنام والانصاب إلا يتساقطون في النار، حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله بر او فاجر، وغبرات اهل الكتاب، فيدعى اليهود، فيقال لهم: من كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد عزير ابن الله، فيقال لهم: كذبتم، ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد، فماذا تبغون؟ فقالوا: عطشنا ربنا فاسقنا، فيشار الا تردون فيحشرون إلى النار كانها سراب يحطم بعضها بعضا فيتساقطون في النار، ثم يدعى النصارى، فيقال لهم: من كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد المسيح ابن الله، فيقال لهم: كذبتم، ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد، فيقال لهم: ماذا تبغون؟ فكذلك مثل الاول، حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر او فاجر، اتاهم رب العالمين في ادنى صورة من التي راوه فيها، فيقال: ماذا تنتظرون؟ تتبع كل امة ما كانت تعبد، قالوا: فارقنا الناس في الدنيا على افقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم، ونحن ننتظر ربنا الذي كنا نعبد، فيقول: انا ربكم، فيقولون: لا نشرك بالله شيئا، مرتين او ثلاثا".(قدسي) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ؟" قَالُوا: لَا، قَالَ:" وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ؟" قَالُوا: لَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ، تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ مِنَ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ بَرٌّ أَوْ فَاجِرٌ، وَغُبَّرَاتُ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ؟ فَقَالُوا: عَطِشْنَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا، فَيُشَارُ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَاذَا تَبْغُونَ؟ فَكَذَلِكَ مِثْلَ الْأَوَّلِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، فَيُقَالُ: مَاذَا تَنْتَظِرُونَ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا عَلَى أَفْقَرِ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ رَبَّنَا الَّذِي كُنَّا نَعْبُدُ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چنانچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہو گی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہو گا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہو گی (یہ وہ صورت نہ ہو گی) اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے (جنہوں نے کفر کیا تھا) جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: During the lifetime of the Prophet some people said, : O Allah's Messenger ! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" The Prophet said, "Yes; do you have any difficulty in seeing the sun at midday when it is bright and there is no cloud in the sky?" They replied, "No." He said, "Do you have any difficulty in seeing the moon on a full moon night when it is bright and there is no cloud in the sky?" They replied, "No." The Prophet said, "(Similarly) you will have no difficulty in seeing Allah on the Day of Resurrection as you have no difficulty in seeing either of them. On the Day of Resurrection, a call-maker will announce, "Let every nation follow that which they used to worship." Then none of those who used to worship anything other than Allah like idols and other deities but will fall in Hell (Fire), till there will remain none but those who used to worship Allah, both those who were obedient (i.e. good) and those who were disobedient (i.e. bad) and the remaining party of the people of the Scripture. Then the Jews will be called upon and it will be said to them, 'Who do you use to worship?' They will say, 'We used to worship Ezra, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has never taken anyone as a wife or a son. What do you want now?' They will say, 'O our Lord! We are thirsty, so give us something to drink.' They will be directed and addressed thus, 'Will you drink,' whereupon they will be gathered unto Hell (Fire) which will look like a mirage whose different sides will be destroying each other. Then they will fall into the Fire. Afterwards the Christians will be called upon and it will be said to them, 'Who do you use to worship?' They will say, 'We used to worship Jesus, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has never taken anyone as a wife or a son,' Then it will be said to them, 'What do you want?' They will say what the former people have said. Then, when there remain (in the gathering) none but those who used to worship Allah (Alone, the real Lord of the Worlds) whether they were obedient or disobedient. Then (Allah) the Lord of the worlds will come to them in a shape nearest to the picture they had in their minds about Him. It will be said, 'What are you waiting for?' Every nation have followed what they used to worship.' They will reply, 'We left the people in the world when we were in great need of them and we did not take them as friends. Now we are waiting for our Lord Whom we used to worship.' Allah will say, 'I am your Lord.' They will say twice or thrice, 'We do not worship any besides Allah.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 105
(قدسي) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابو حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلحم، فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه، فنهش منها نهشة، ثم قال:" انا سيد الناس يوم القيامة، وهل تدرون مم ذلك؟ يجمع الله الناس الاولين والآخرين في صعيد واحد، يسمعهم الداعي، وينفذهم البصر، وتدنو الشمس، فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون، ولا يحتملون، فيقول الناس: الا ترون ما قد بلغكم، الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟، فيقول بعض الناس لبعض: عليكم بآدم، فياتون آدم عليه السلام، فيقولون له: انت ابو البشر خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى إلى ما قد بلغنا، فيقول آدم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد نهاني عن الشجرة، فعصيته نفسي نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح، إنك انت اول الرسل إلى اهل الارض، وقد سماك الله عبدا شكورا، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي عز وجل قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة دعوتها على قومي نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقولون: يا إبراهيم، انت نبي الله وخليله من اهل الارض اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد كنت كذبت ثلاث كذبات، فذكرهن ابو حيان في الحديث نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى موسى، فياتون موسى، فيقولون: يا موسى، انت رسول الله، فضلك الله برسالته وبكلامه على الناس، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد قتلت نفسا لم اومر بقتلها نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى عيسى ابن مريم، فياتون عيسى، فيقولون: يا عيسى، انت رسول الله وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وكلمت الناس في المهد صبيا اشفع لنا إلى ربك الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول عيسى: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله قط، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر ذنبا نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد، فياتون محمدا، فيقولون: يا محمد، انت رسول الله وخاتم الانبياء، وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فانطلق فآتي تحت العرش، فاقع ساجدا لربي عز وجل، ثم يفتح الله علي من محامده، وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على احد قبلي، ثم يقال: يا محمد، ارفع راسك سل تعطه، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي يا رب، امتي يا رب، امتي يا رب، فيقال: يا محمد، ادخل من امتك من لا حساب عليهم من الباب الايمن من ابواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب، ثم قال: والذي نفسي بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وحمير، او كما بين مكة وبصرى". (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے ”شکر گزار بندہ“(عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
Narrated Abu Huraira: Some (cooked) meat was brought to Allah Apostle and the meat of a forearm was presented to him as he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know the reason for it? Allah will gather all the human being of early generations as well as late generation on one plain so that the announcer will be able to make them all-hear his voice and the watcher will be able to see all of them. The sun will come so close to the people that they will suffer such distress and trouble as they will not be able to bear or stand. Then the people will say, 'Don't you see to what state you have reached? Won't you look for someone who can intercede for you with your Lord' Some people will say to some others, 'Go to Adam.' So they will go to Adam and say to him. 'You are the father of mankind; Allah created you with His Own Hand, and breathed into you of His Spirit (meaning the spirit which he created for you); and ordered the angels to prostrate before you; so (please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? Don't you see what condition we have reached?' Adam will say, 'Today my Lord has become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. He forbade me (to eat of the fruit of) the tree, but I disobeyed Him . Myself! Myself! Myself! (I am preoccuied with my own problems). Go to someone else; go to Noah.' So they will go to Noah and say (to him), 'O Noah! You are the first (of Allah's Messengers) to the people of the earth, and Allah has named you a thankful slave; please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say.' Today my Lord has become angry as He has never become nor will ever become thereafter. I had (in the world) the right to make one definitely accepted invocation, and I made it against my nation. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Abraham.' They will go to Abraham and say, 'O Abraham! You are Allah's Messenger and His Khalil from among the people of the earth; so please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say to them, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. I had told three lies (Abu Haiyan (the sub-narrator) mentioned them in the Hadith) Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Moses.' The people will then go to Moses and say, 'O Moses! You art Allah's Messenger and Allah gave you superiority above the others with this message and with His direct Talk to you; (please) intercede for us with your Lord Don't you see in what state we are?' Moses will say, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will become thereafter, I killed a person whom I had not been ordered to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Jesus.' So they will go to Jesus and say, 'O Jesus! You are Allah's Messenger and His Word which He sent to Mary, and a superior soul created by Him, and you talked to the people while still young in the cradle. Please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' Jesus will say. 'My Lord has today become angry as He has never become before nor will ever become thereafter. Jesus will not mention any sin, but will say, 'Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Muhammad.' So they will come to me and say, 'O Muhammad ! You are Allah's Messenger and the last of the prophets, and Allah forgave your early and late sins. (Please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?" The Prophet added, "Then I will go beneath Allah's Throne and fall in prostration before my Lord. And then Allah will guide me to such praises and glorification to Him as He has never guided anybody else before me. Then it will be said, 'O Muhammad Raise your head. Ask, and it will be granted. Intercede and It (your intercession) will be accepted.' So I will raise my head and Say, 'My followers, O my Lord! My followers, O my Lord'. It will be said, 'O Muhammad! Let those of your followers who have no accounts, enter through such a gate of the gates of Paradise as lies on the right; and they will share the other gates with the people." The Prophet further said, "By Him in Whose Hand my soul is, the distance between every two gate-posts of Paradise is like the distance between Mecca and Busra (in Sham).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 236
(مرفوع) حدثني إسماعيل بن ابان، حدثنا ابو الاحوص، عن آدم بن علي، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، يقول:" إن الناس يصيرون يوم القيامة جثا كل امة تتبع نبيها، يقولون: يا فلان، اشفع يا فلان، اشفع حتى تنتهي الشفاعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذلك يوم يبعثه الله المقام المحمود".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" إِنَّ النَّاسَ يَصِيرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا كُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَّهَا، يَقُولُونَ: يَا فُلَانُ، اشْفَعْ يَا فُلَانُ، اشْفَعْ حَتَّى تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ".
مجھ سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے آدم بن علی نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ قیامت کے دن امتیں گروہ در گروہ چلیں گی۔ ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور (انبیاء سے) کہے گی کہ اے فلاں! ہماری شفاعت کرو (مگر وہ سب ہی انکار کر دیں گے) آخر شفاعت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔
Narrated Ibn `Umar: On the Day of Resurrection the people will fall on their knees and every nation will follow their prophet and they will say, "O so-and-so! Intercede (for us with Allah), "till (the right) intercession is given to the Prophet (Muhammad) and that will be the day when Allah will raise him into a station of praise and glory (i.e. Al-Maqam -al-Mahmud).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 242
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا الليث، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة، فيبقى كل من كان يسجد في الدنيا رياء وسمعة، فيذهب ليسجد، فيعود ظهره طبقا واحدا".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا بن یسار اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدہ کے لیے نہ مڑ سکیں گے۔
Narrated Abu Sa`id: I heard the Prophet saying, "Allah will bring forth the severest Hour, and then all the Believers, men and women, will prostrate themselves before Him, but there will remain those who used to prostrate in the world for showing off and for gaining good reputation. Such people will try to prostrate (on the Day of Judgment) but their back swill be as stiff as if it is one bone (a single vertebra).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 441
(قدسي) حدثنا موسى، حدثنا وهيب، حدثنا عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا دخل اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، يقول الله: من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فاخرجوه، فيخرجون قد امتحشوا وعادوا حمما، فيلقون في نهر الحياة، فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل، او قال: حمية السيل، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: الم تروا انها تنبت صفراء ملتوية".(قدسي) حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، يَقُولُ اللَّهُ: مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيَخْرُجُونَ قَدِ امْتُحِشُوا وَعَادُوا حُمَمًا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرِ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، أَوْ قَالَ: حَمِيَّةِ السَّيْلِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّهَا تَنْبُتُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے دوزخ سے نکال لو۔ اس وقت ایسے لوگ نکالے جائیں گے اور وہ اس وقت جل کر کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے۔ اس کے بعد انہیں ”نہر حیاۃ“(زندگی بخش دریا) میں ڈالا جائے گا۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ اور شگفتہ ہو جائیں گے جس طرح سیلاب کی جگہ پر کوڑے کرکٹ کا دانہ (اسی رات یا دن میں) اگ آتا ہے یا راوی نے کہا ( «حميل السيل» کے بجائے) «حمية السيل» کہا ہے۔ یعنی جہاں سیلاب کا زور ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس دانہ سے زرد رنگ کا لپٹا ہوا بارونق پودا اگتا ہے۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Allah's Apostle said, "When the people of Paradise have entered Paradise, and the people of the Fire have entered the Fire, Allah will say. 'Take out (of the Fire) whoever has got faith equal to a mustard seed in his heart.' They will come out, and by that time they would have burnt and became like coal, and then they will be thrown into the river of Al-Hayyat (life) and they will spring up just as a seed grows on the bank of a rainwater stream." The Prophet said, "Don't you see that the germinating seed comes out yellow and twisted?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 565
(قدسي) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجمع الله الناس يوم القيامة، فيقولون: لو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا، فياتون آدم، فيقولون: انت الذي خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، فاشفع لنا عند ربنا، فيقول: لست هناكم ويذكر خطيئته، ويقول: ائتوا نوحا اول رسول بعثه الله، فياتونه، فيقول: لست هناكم ويذكر خطيئته، ائتوا إبراهيم الذي اتخذه الله خليلا، فياتونه، فيقول: لست هناكم ويذكر خطيئته، ائتوا موسى الذي كلمه الله، فياتونه، فيقول: لست هناكم فيذكر خطيئته، ائتوا عيسى، فياتونه، فيقول: لست هناكم، ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم، فقد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، فياتوني فاستاذن على ربي، فإذا رايته وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله، ثم يقال لي: ارفع راسك، سل تعطه، وقل يسمع، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاحمد ربي بتحميد يعلمني، ثم اشفع فيحد لي حدا، ثم اخرجهم من النار وادخلهم الجنة، ثم اعود فاقع ساجدا مثله، في الثالثة او الرابعة، حتى ما بقي في النار، إلا من حبسه القرآن"، وكان قتادة، يقول: عند هذا، اي وجب عليه الخلود.(قدسي) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّنَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، وَيَقُولُ: ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا مُوسَى الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، ائْتُوا عِيسَى، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِي، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، ثُمَّ أُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا مِثْلَهُ، فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، حَتَّى مَا بَقِيَ فِي النَّارِ، إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ"، وَكَانَ قَتَادَةُ، يَقُولُ: عِنْدَ هَذَا، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔
Narrated Anas: Allah's Apostle said, "Allah will gather all the people on the Day of Resurrection and they will say, 'Let us request someone to intercede for us with our Lord so that He may relieve us from this place of ours.' Then they will go to Adam and say, 'You are the one whom Allah created with His Own Hands, and breathed in you of His soul, and ordered the angels to prostrate to you; so please intercede for us with our Lord.' Adam will reply, 'I am not fit for this undertaking, and will remember his sin, and will say, 'Go to Noah, the first Apostle sent by Allah' They will go to him and he will say, 'I am not fit for this undertaking', and will remember his sin and say, 'Go to Abraham whom Allah took as a Khalil. They will go to him (and request similarly). He will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Moses to whom Allah spoke directly.' They will go to Moses and he will say, 'I am not fit for this undertaking,' and will remember his sin and say, 'Go to Jesus.' They will go to him, and he will say, 'I am not fit for this undertaking, go to Muhammad as Allah has forgiven his past and future sins.' They will come to me and I will ask my Lord's permission, and when I see Him, I will fall down in prostration to Him, and He will leave me in that state as long as (He) Allah will, and then I will be addressed. 'Raise up your head (O Muhammad)! Ask, and your request will be granted, and say, and your saying will be listened to; intercede, and your intercession will be accepted.' Then I will raise my head, and I will glorify and praise my Lord with a saying(i.e. invocation) He will teach me, and then I will intercede, Allah will fix a limit for me (i.e., certain type of people for whom I may intercede), and I will take them out of the (Hell) Fire and let them enter Paradise. Then I will come back (to Allah) and fall in prostration, and will do the same for the third and fourth times till no-one remains in the (Hell) Fire except those whom the Qur'an has imprisoned therein." (The sub-narrator, Qatada used to say at that point, "...those upon whom eternity (in Hell) has been imposed.") (See Hadith No. 3, Vol 6).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 570
(قدسي) قال عطاء، وابو سعيد الخدري جالس مع ابي هريرة لا يغير عليه شيئا من حديثه، حتى انتهى إلى قوله:" هذا لك ومثله معه"، قال ابو سعيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" هذا لك وعشرة امثاله"، قال ابو هريرة: حفظت: مثله معه.(قدسي) قَالَ عَطَاءٌ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يُغَيِّرُ عَلَيْهِ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَوْلِهِ:" هَذَا لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: حَفِظْتُ: مِثْلُهُ مَعَهُ.
عطاء نے بیان کیا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے، یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔
Narrated 'Ata (while Abu Huraira was narrating (see previous hadith)): Abu Sa`id was sitting in the company of Abu Huraira and he did not deny anything of his narration till he reached his saying: "All this and as much again therewith are for you." Then Abu Sa`id said, "I heard Allah's Apostle saying, 'This is for you and ten times as much.' " Abu Huraira said, "In my memory it is 'as much again therewith.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 577
(قدسي) حدثني معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يجمع الله المؤمنين يوم القيامة، كذلك فيقولون: لو استشفعنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا، فياتون آدم، فيقولون: يا آدم، اما ترى الناس، خلقك الله بيده، واسجد لك ملائكته، وعلمك اسماء كل شيء، اشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا، فيقول: لست هناك ويذكر لهم خطيئته التي اصابها ولكن ائتوا نوحا، فإنه اول رسول بعثه الله إلى اهل الارض، فياتون نوحا، فيقول: لست هناكم ويذكر خطيئته التي اصاب ولكن ائتوا إبراهيم خليل الرحمن، فياتون إبراهيم، فيقول: لست هناكم ويذكر لهم خطاياه التي اصابها ولكن ائتوا موسى عبدا آتاه الله التوراة وكلمه تكليما، فياتون موسى، فيقول: لست هناكم ويذكر لهم خطيئته التي اصاب ولكن ائتوا عيسى عبد الله ورسوله وكلمته وروحه فياتون عيسى، فيقول: لست هناكم ولكن ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، فياتوني، فانطلق، فاستاذن على ربي، فيؤذن لي عليه، فإذا رايت ربي وقعت له ساجدا، فيدعني ما شاء الله ان يدعني، ثم يقال لي: ارفع محمد، وقل يسمع، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاحمد ربي بمحامد علمنيها، ثم اشفع، فيحد لي حدا، فادخلهم الجنة، ثم ارجع، فإذا رايت ربي وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله ان يدعني، ثم يقال: ارفع محمد، وقل يسمع، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاحمد ربي بمحامد علمنيها ربي ثم اشفع، فيحد لي حدا فادخلهم الجنة، ثم ارجع، فإذا رايت ربي وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله ان يدعني، ثم يقال: ارفع محمد، قل يسمع، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاحمد ربي بمحامد علمنيها ثم اشفع، فيحد لي حدا فادخلهم الجنة، ثم ارجع، فاقول: يا رب، ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود، قال النبي صلى الله عليه وسلم: يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة، ثم يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن برة، ثم يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله وكان في قلبه ما يزن من الخير ذرة".(قدسي) حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَجْمَعُ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، كَذَلِكَ فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَمَا تَرَى النَّاسَ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكَ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا، فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطَايَاهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا آتَاهُ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَكَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَتَهُ وَرُوحَهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي، فَأَنْطَلِقُ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ لَهُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ لِي: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَرْجِعُ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا رَبِّي ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَرْجِعُ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، قُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ثُمَّ أَشْفَعْ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَرْجِعُ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ مِنَ الْخَيْرِ ذَرَّةً".
مجھ سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے، انہوں نے قتادہ بن دعامہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی طرح جیسے ہم دنیا میں جمع ہوتے ہیں، مومنوں کو اکٹھا کرے گا (وہ گرمی وغیرہ سے پریشان ہو کر) کہیں گے کاش ہم کسی کی سفارش اپنے مالک کے پاس لے جاتے تاکہ ہمیں اپنی اس حالت سے آرام ملتا۔ چنانچہ سب مل کر آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ ان سے کہیں گے آدم! آپ لوگوں کا حال نہیں دیکھتے کس بلا میں گرفتار ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے (خاص) اپنے ہاتھ سے بنایا اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور ہر چیز کے نام آپ کو بتلائے (ہر لغت میں بولنا بات کرنا سکھلایا) کچھ سفارش کیجئے تاکہ ہم لوگوں کو اس جگہ سے نجات ہو کر آرام ملے۔ کہیں گے میں اس لائق نہیں، ان کو وہ گناہ یاد آ جائے گا جو انہوں نے کیا تھا (ممنوع درخت میں سے کھانا)۔ (وہ کہیں گے) مگر تم لوگ ایسا کرو نوح علیہ السلام پیغمبر کے پاس جاؤ وہ پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف بھیجا تھا۔ آخر وہ لوگ سب نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، وہ بھی یہی جواب دیں گے، میں اس لائق نہیں اپنی خطا جو انہوں نے (دنیا میں) کی تھی یاد کریں گے۔ کہیں گے تم لوگ ایسا کرو پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں (لوگ ان کے پاس جائیں گے) وہ بھی اپنی خطائیں یاد کر کے کہیں گے میں اس لائق نہیں تم موسیٰ علیہ السلام پیغمبر کے پاس جاؤ اللہ نے ان کو توراۃ عنائت فرمائی، ان سے بول کر باتیں کیں۔ یہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی یہی کہیں گے میں اس لائق نہیں اپنی خطا جو انہوں نے دنیا میں کی تھی یاد کریں گے مگر تم ایسا کرو عیسیٰ علیہ السلام پیغمبر کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کے خاص کلمہ اور خاص روح ہیں۔ یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے میں اس لائق نہیں تم ایسا کرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کی اگلی پچھلی خطائیں سب بخش دی گئی ہیں۔ آخر یہ سب لوگ جمع ہو کر میرے پاس آئیں گے۔ میں چلوں گا اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت مانگوں گا، مجھ کو اجازت ملے گی۔ میں اپنے پروردگار کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا اور جب تک اس کو منظور ہے وہ مجھ کو سجدے ہی میں پڑا رہنے دے گا۔ اس کے بعد حکم ہو گا ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو تمہاری عرض سنی جائے گی تمہاری درخواست منظور ہو گی، تمہاری سفارش مقبول ہو گی اس وقت میں اپنے مالک کی ایسی ایسی تعریفیں کروں گا جو وہ مجھ کو سکھا چکا ہے۔ (یا سکھلائے گا) پھر لوگوں کی سفارش شروع کر دوں گا۔ سفارش کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں ان کو بہشت میں لے جاؤں گا، پھر لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس حاضر ہوں گا اور اس کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک پروردگار چاہے گا مجھ کو سجدے میں پڑا رہنے دے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہو گا ”محمد اپنا سر اٹھاؤ جو تم کہو گے سنا جائے گا اور سفارش کرو گے تو قبول ہو گی پھر میں اپنے پروردگار کی ایسی تعریفیں کروں گا جو اللہ نے مجھ کو سکھلائیں (یا سکھلائے گا) اس کے بعد سفارش کر دوں گا لیکن سفارش کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں ان کو بہشت میں لے جاؤں گا پھر لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس حاضر ہوں گا اس کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک پروردگار چاہے گا مجھ کو سجدے میں پڑا رہنے دیے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہو گا محمد اپنا سر اٹھاؤ جو تم کہو گے سنا جائے گا اور سفارش کرو گے تو قبول ہو گی پھر میں اپنے پروردگار کی ایسی تعریفیں کروں گا جو اللہ نے مجھ کو سکھلائیں (یا سکھلائے گا) اس کے بعد سفارش شروع کر دوں گا لیکن سفارش کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں ان کو بہشت میں لے جاؤں گا پھر لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس حاضر ہوں گا۔ عرض کروں گا: یا پاک پروردگار! اب تو دوزخ میں ایسے ہی لوگ رہ گئے ہیں جو قرآن کے بموجب دوزخ ہی میں ہمیشہ رہنے کے لائق ہیں (یعنی کافر اور مشرک)۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ سے وہ لوگ نکال لیے جائیں گے جنہوں نے (دنیا میں) لا الہٰ الا اللہ کہا ہو گا اور ان کے دل میں ایک جَو برابر ایمان ہو گا پھر وہ لوگ بھی نکال لیے جائیں گے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہو گا اور ان کے دل میں گیہوں برابر ایمان ہو گا۔ (گیہوں جَو سے چھوٹا ہوتا ہے) پھر وہ بھی نکال لیے جائیں گے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہو گا اور ان کے دل میں چیونٹی برابر (یا بھنگے برابر) ایمان ہو گا۔
Narrated Anas: The Prophet said, "Allah will gather the believers on the Day of Resurrection in the same way (as they are gathered in this life), and they will say, 'Let us ask someone to intercede for us with our Lord that He may relieve us from this place of ours.' Then they will go to Adam and say, 'O Adam! Don't you see the people (people's condition)? Allah created you with His Own Hands and ordered His angels to prostrate before you, and taught you the names of all the things. Please intercede for us with our Lord so that He may relieve us from this place of ours.' Adam will say, 'I am not fit for this undertaking' and mention to them the mistakes he had committed, and add, "But you d better go to Noah as he was the first Apostle sent by Allah to the people of the Earth.' They will go to Noah who will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and mention the mistake which he made, and add, 'But you'd better go to Abraham, Khalil Ar-Rahman.' They will go to Abraham who will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and mention to them the mistakes he made, and add, 'But you'd better go to Moses, a slave whom Allah gave the Torah and to whom He spoke directly' They will go to Moses who will reply, 'I am not fit for this undertaking,' and mention to them the mistakes he made, and add, 'You'd better go to Jesus, Allah's slave and His Apostle and His Word (Be: And it was) and a soul created by Him.' They will go to Jesus who will say, 'I am not fit for this undertaking, but you'd better go to Muhammad whose sins of the past and the future had been forgiven (by Allah).' So they will come to me and I will ask the permission of my Lord, and I will be permitted (to present myself) before Him. When I see my Lord, I will fall down in (prostration) before Him and He will leave me (in prostration) as long as He wishes, and then it will be said to me, 'O Muhammad! Raise your head and speak, for you will be listened to; and ask, for you will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will then raise my head and praise my Lord with certain praises which He has taught me, and then I will intercede. Allah will allow me to intercede (for a certain kind of people) and will fix a limit whom I will admit into Paradise. I will come back again, and when I see my Lord (again), I will fall down in prostration before Him, and He will leave me (in prostration) as long as He wishes, and then He will say, 'O Muhammad! Raise your head and speak, for you will be listened to; and ask, for you will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will then praise my Lord with certain praises which He has taught me, and then I will intercede. Allah will allow me to intercede (for a certain kind of people) and will fix a limit to whom I will admit into Paradise, I will return again, and when I see my Lord, I will fall down (in prostration) and He will leave me (in prostration) as long as He wishes, and then He will say, 'O Muhammad! Raise your head and speak, for you will be listened to, and ask, for you will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will then praise my Lord with certain praises which He has taught me, and then I will intercede. Allah will allow me to intercede (for a certain kind of people) and will fix a limit to whom I will admit into Paradise. I will come back and say, 'O my Lord! None remains in Hell (Fire) but those whom Qur'an has imprisoned therein and for whom eternity in Hell (Fire) has become inevitable.' " The Prophet added, "There will come out of Hell (Fire) everyone who says: 'La ilaha illal-lah,' and has in his heart good equal to the weight of a barley grain. Then there will come out of Hell (Fire) everyone who says: ' La ilaha illal-lah,' and has in his heart good equal to the weight of a wheat grain. Then there will come out of Hell (Fire) everyone who says: 'La ilaha illal-lah,' and has in his heart good equal to the weight of an atom (or a smallest ant).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 507
(مرفوع) قال عطاء بن يزيد وابو سعيد الخدري مع ابي هريرة: لا يرد عليه من حديثه شيئا حتى إذا حدث ابو هريرة ان الله تبارك وتعالى قال ذلك لك ومثله معه، قال ابو سعيد الخدري: وعشرة امثاله معه: يا ابا هريرة، قال ابو هريرة: ما حفظت إلا قوله ذلك لك ومثله معه، قال ابو سعيد الخدري: اشهد اني حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قوله ذلك لك وعشرة امثاله، قال ابو هريرة: فذلك الرجل آخر اهل الجنة دخولا الجنة.(مرفوع) قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ: لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا حَفِظْتُ إِلَّا قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ.
عطا بن یزید نے بیان کیا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی حدیث کا کوئی حصہ رد نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ”یہ اور انہیں جیسی تمہیں اور ملیں گی“ تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے دس گنا ملیں گی اے ابوہریرہ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد یاد ہے کہ ”یہ اور انہیں جیسی اور“ اس پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے آپ کا یہ ارشاد یاد کیا ہے کہ ”تمہیں یہ سب چیزیں ملیں گی اور اس سے دس گنا“ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص جنت میں سب سے آخری داخل ہونے والا ہو گا۔
Ata' bin Yazid added: Abu Sa'id Al-Khudri who was present with Abu Huraira, did not deny whatever the latter said, but when Abu Huraira said that Allah had said, "That is for you and its equal as well," Abu Sa'id Al-Khudri said, "And ten times as much, O Abu Huraira!" Abu Huraira said, "I do not remember, except his saying, 'That is for you and its equal as well.'" Abu Sa'id Al-Khudri then said, "I testify that I remember the Prophet saying, 'That is for you, and ten times as much.' ' Abu Huraira then added, "That man will be the last person of the people of Paradise to enter Paradise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 532
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث بن سعد، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن زيد، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: قلنا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟، قال: هل تضارون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صحوا، قلنا: لا، قال: فإنكم لا تضارون في رؤية ربكم يومئذ إلا كما تضارون في رؤيتهما، ثم قال: ينادي مناد ليذهب كل قوم إلى ما كانوا يعبدون، فيذهب اصحاب الصليب مع صليبهم، واصحاب الاوثان مع اوثانهم، واصحاب كل آلهة مع آلهتهم حتى يبقى من كان يعبد الله من بر، او فاجر، وغبرات من اهل الكتاب، ثم يؤتى بجهنم تعرض كانها سراب، فيقال لليهود: ما كنتم تعبدون؟، قالوا: كنا نعبد عزير ابن الله، فيقال: كذبتم لم يكن لله صاحبة ولا ولد فما تريدون؟، قالوا: نريد ان تسقينا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم، ثم يقال للنصارى: ما كنتم تعبدون؟، فيقولون: كنا نعبد المسيح ابن الله، فيقال: كذبتم لم يكن لله صاحبة ولا ولد، فما تريدون؟، فيقولون: نريد ان تسقينا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم حتى يبقى من كان يعبد الله من بر، او فاجر، فيقال: لهم ما يحبسكم وقد ذهب الناس؟، فيقولون: فارقناهم، ونحن احوج منا إليه اليوم، وإنا سمعنا مناديا ينادي ليلحق كل قوم بما كانوا يعبدون، وإنما ننتظر ربنا، قال: فياتيهم الجبار في صورة غير صورته التي راوه فيها اول مرة، فيقول: انا ربكم، فيقولون: انت ربنا، فلا يكلمه إلا الانبياء، فيقول: هل بينكم وبينه آية تعرفونه؟، فيقولون: الساق، فيكشف عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ويبقى من كان يسجد لله رياء وسمعة، فيذهب كيما يسجد، فيعود ظهره طبقا واحدا، ثم يؤتى بالجسر، فيجعل بين ظهري جهنم، قلنا: يا رسول الله، وما الجسر؟، قال: مدحضة مزلة عليه خطاطيف وكلاليب وحسكة مفلطحة لها شوكة عقيفاء تكون بنجد يقال لها السعدان المؤمن عليها كالطرف، وكالبرق، وكالريح، وكاجاويد الخيل والركاب، فناج مسلم وناج مخدوش ومكدوس في نار جهنم، حتى يمر آخرهم يسحب سحبا فما انتم باشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار، وإذا راوا انهم قد نجوا في إخوانهم، يقولون: ربنا إخواننا كانوا يصلون معنا ويصومون معنا ويعملون معنا، فيقول الله تعالى: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فاخرجوه، ويحرم الله صورهم على النار، فياتونهم وبعضهم قد غاب في النار إلى قدمه وإلى انصاف ساقيه، فيخرجون من عرفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار، فاخرجوه، فيخرجون من عرفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من إيمان، فاخرجوه، فيخرجون من عرفوا، قال ابو سعيد: فإن لم تصدقوني، فاقرءوا: إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها سورة النساء آية 40 فيشفع النبيون والملائكة والمؤمنون، فيقول الجبار: بقيت شفاعتي، فيقبض قبضة من النار، فيخرج اقواما قد امتحشوا فيلقون في نهر بافواه الجنة، يقال له: ماء الحياة، فينبتون في حافتيه كما تنبت الحبة في حميل السيل قد رايتموها إلى جانب الصخرة وإلى جانب الشجرة فما كان إلى الشمس منها كان اخضر وما كان منها إلى الظل كان ابيض، فيخرجون كانهم اللؤلؤ، فيجعل في رقابهم الخواتيم، فيدخلون الجنة: فيقول اهل الجنة: هؤلاء عتقاء الرحمن ادخلهم الجنة بغير عمل عملوه ولا خير قدموه، فيقال لهم: لكم ما رايتم ومثله معه"، (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، قَالَ: هَلْ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا، قُلْنَا: لَا، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَئِذٍ إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: يُنَادِي مُنَادٍ لِيَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِيبِ مَعَ صَلِيبِهِمْ، وَأَصْحَابُ الْأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ، وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ، أَوْ فَاجِرٍ، وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، ثُمَّ يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ، فَيُقَالُ لِلْيَهُودِ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟، قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ؟، قَالُوا: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ، ثُمَّ يُقَالُ لِلنَّصَارَى: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟، فَيَقُولُونَ: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ، فَمَا تُرِيدُونَ؟، فَيَقُولُونَ: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ، أَوْ فَاجِرٍ، فَيُقَالُ: لَهُمْ مَا يَحْبِسُكُمْ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ؟، فَيَقُولُونَ: فَارَقْنَاهُمْ، وَنَحْنُ أَحْوَجُ مِنَّا إِلَيْهِ الْيَوْمَ، وَإِنَّا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، وَإِنَّمَا نَنْتَظِرُ رَبَّنَا، قَالَ: فَيَأْتِيهِمُ الْجَبَّارُ فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَلَا يُكَلِّمُهُ إِلَّا الْأَنْبِيَاءُ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ تَعْرِفُونَهُ؟، فَيَقُولُونَ: السَّاقُ، فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ كَيْمَا يَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا، ثُمَّ يُؤْتَى بِالْجَسْرِ، فَيُجْعَلُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْجَسْرُ؟، قَالَ: مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ عَلَيْهِ خَطَاطِيفُ وَكَلَالِيبُ وَحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لَهَا شَوْكَةٌ عُقَيْفَاءُ تَكُونُ بِنَجْدٍ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ الْمُؤْمِنُ عَلَيْهَا كَالطَّرْفِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّيحِ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَنَاجٍ مَخْدُوشٌ وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى يَمُرَّ آخِرُهُمْ يُسْحَبُ سَحْبًا فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ، وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيَأْتُونَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، ثُمَّ يَعُودُونَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ، فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، ثُمَّ يَعُودُونَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي، فَاقْرَءُوا: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا سورة النساء آية 40 فَيَشْفَعُ النَّبِيُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْمُؤْمِنُونَ، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ: بَقِيَتْ شَفَاعَتِي، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوا فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرٍ بِأَفْوَاهِ الْجَنَّةِ، يُقَالُ لَهُ: مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ فِي حَافَتَيْهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ قَدْ رَأَيْتُمُوهَا إِلَى جَانِبِ الصَّخْرَةِ وَإِلَى جَانِبِ الشَّجَرَةِ فَمَا كَانَ إِلَى الشَّمْسِ مِنْهَا كَانَ أَخْضَرَ وَمَا كَانَ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ كَانَ أَبْيَضَ، فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ اللُّؤْلُؤُ، فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِيمُ، فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: فَيَقُولُ أَهْلُ الْجَنَّةِ: هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الرَّحْمَنِ أَدْخَلَهُمُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"،
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان بھی صاف ہو؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے رب کے دیدار میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پیش آئے گی جس طرح سورج اور چاند کو دیکھنے میں نہیں پیش آتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ، تمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ ان میں نیک و بد دونوں قسم کے مسلمانوں ہوں گے اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ پھر دوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدار ہو گی جیسے میدان کا ریت ہوتا ہے۔ (جو دور سے پانی معلوم ہوتا ہے) پھر یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کے پوجا کرتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر ابن اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ انہیں جواب ملے گا کہ تم جھوٹے ہو اللہ کے نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی لڑکا۔ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کر چلیں گے اور پھر وہ جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ سے کہا جائے گا کہ تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ کے نہ بیوی تھی اور نہ کوئی بچہ، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے سیراب کئے جائیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو (ان کو بھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا) اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے، نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان، ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لیے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا: کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ «ساق.» پنڈلی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کرتے تھے، وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔ پھر انہیں پل پر لایا جائے گا۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پل کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا , وہ ایک پھسلواں گرنے کا مقام ہے اس پر سنسنیاں ہیں، آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کے سر خمدار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہیں جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں۔ مومن اس پر پلک مارنے کی طرح، بجلی کی طرح، ہوا کی طرح، تیز رفتار گھوڑے اور سواری کی طرح گزر جائیں گے۔ ان میں بعض تو صحیح سلامت نجات پانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس کر بچ نکلنے والے ہوں گے یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض کا تو جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں دوزخ سے نکالیں گے، پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے۔ پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ پہچانے جانے والوں کو نکالیں گے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو «إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها»”اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے۔ پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہو گا کہ اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہو گئے ہوں گے۔ پھر وہ جنت کے سرے پر ایک نہر میں ڈال دئیے جائیں گے جسے نہر آب حیات کہا جاتا ہے اور یہ لوگ اس کے کنارے سے اس طرح ابھریں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا تو جس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے وہ سبزا بھرتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید ابھرتا ہے۔ پھر وہ اس طرح نکلیں گے جیسے موتی چمکتا ہے۔ اس کے بعد ان کی گردنوں پر مہر کر دی جائیں گے (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں) اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اہل جنت انہیں «عتقاء الرحمن» کہیں گے۔ انہیں اللہ نے بلا عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بلا خیر کے جو ان سے صادر ہوئی ہو جنت میں داخل کیا ہے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی اور بھی ملے گا۔
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri: We said, "O Allah's Apostle! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" He said, "Do you have any difficulty in seeing the sun and the moon when the sky is clear?" We said, "No." He said, "So you will have no difficulty in seeing your Lord on that Day as you have no difficulty in seeing the sun and the moon (in a clear sky)." The Prophet then said, "Somebody will then announce, 'Let every nation follow what they used to worship.' So the companions of the cross will go with their cross, and the idolators (will go) with their idols, and the companions of every god (false deities) (will go) with their god, till there remain those who used to worship Allah, both the obedient ones and the mischievous ones, and some of the people of the Scripture. Then Hell will be presented to them as if it were a mirage. Then it will be said to the Jews, "What did you use to worship?' They will reply, 'We used to worship Ezra, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has neither a wife nor a son. What do you want (now)?' They will reply, 'We want You to provide us with water.' Then it will be said to them 'Drink,' and they will fall down in Hell (instead). Then it will be said to the Christians, 'What did you use to worship?' They will reply, 'We used to worship Messiah, the son of Allah.' It will be said, 'You are liars, for Allah has neither a wife nor a son. What: do you want (now)?' They will say, 'We want You to provide us with water.' It will be said to them, 'Drink,' and they will fall down in Hell (instead). When there remain only those who used to worship Allah (Alone), both the obedient ones and the mischievous ones, it will be said to them, 'What keeps you here when all the people have gone?' They will say, 'We parted with them (in the world) when we were in greater need of them than we are today, we heard the call of one proclaiming, 'Let every nation follow what they used to worship,' and now we are waiting for our Lord.' Then the Almighty will come to them in a shape other than the one which they saw the first time, and He will say, 'I am your Lord,' and they will say, 'You are not our Lord.' And none will speak: to Him then but the Prophets, and then it will be said to them, 'Do you know any sign by which you can recognize Him?' They will say. 'The Shin,' and so Allah will then uncover His Shin whereupon every believer will prostrate before Him and there will remain those who used to prostrate before Him just for showing off and for gaining good reputation. These people will try to prostrate but their backs will be rigid like one piece of a wood (and they will not be able to prostrate). Then the bridge will be laid across Hell." We, the companions of the Prophet said, "O Allah's Apostle! What is the bridge?' He said, "It is a slippery (bridge) on which there are clamps and (Hooks like) a thorny seed that is wide at one side and narrow at the other and has thorns with bent ends. Such a thorny seed is found in Najd and is called As-Sa'dan. Some of the believers will cross the bridge as quickly as the wink of an eye, some others as quick as lightning, a strong wind, fast horses or she-camels. So some will be safe without any harm; some will be safe after receiving some scratches, and some will fall down into Hell (Fire). The last person will cross by being dragged (over the bridge)." The Prophet said, "You (Muslims) cannot be more pressing in claiming from me a right that has been clearly proved to be yours than the believers in interceding with Almighty for their (Muslim) brothers on that Day, when they see themselves safe. They will say, 'O Allah! (Save) our brothers (for they) used to pray with us, fast with us and also do good deeds with us.' Allah will say, 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of one (gold) Dinar.' Allah will forbid the Fire to burn the faces of those sinners. They will go to them and find some of them in Hell (Fire) up to their feet, and some up to the middle of their legs. So they will take out those whom they will recognize and then they will return, and Allah will say (to them), 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of one half Dinar.' They will take out whomever they will recognize and return, and then Allah will say, 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of an atom (or a smallest ant), and so they will take out all those whom they will recognize." Abu Sa'id said: If you do not believe me then read the Holy Verse:-- 'Surely! Allah wrongs not even of the weight of an atom (or a smallest ant) but if there is any good (done) He doubles it.' (4.40) The Prophet added, "Then the prophets and Angels and the believers will intercede, and (last of all) the Almighty (Allah) will say, 'Now remains My Intercession. He will then hold a handful of the Fire from which He will take out some people whose bodies have been burnt, and they will be thrown into a river at the entrance of Paradise, called the water of life. They will grow on its banks, as a seed carried by the torrent grows. You have noticed how it grows beside a rock or beside a tree, and how the side facing the sun is usually green while the side facing the shade is white. Those people will come out (of the River of Life) like pearls, and they will have (golden) necklaces, and then they will enter Paradise whereupon the people of Paradise will say, 'These are the people emancipated by the Beneficent. He has admitted them into Paradise without them having done any good deeds and without sending forth any good (for themselves).' Then it will be said to them, 'For you is what you have seen and its equivalent as well.'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 532
(مرفوع) حدثنا يوسف بن راشد، حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن حميد، قال: سمعت انسا رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا كان يوم القيامة شفعت، فقلت: يا رب، ادخل الجنة من كان في قلبه خردلة، فيدخلون، ثم اقول ادخل الجنة من كان في قلبه ادنى شيء"، فقال انس: كاني انظر إلى اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ شُفِّعْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ خَرْدَلَةٌ، فَيَدْخُلُونَ، ثُمَّ أَقُولُ أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى شَيْءٍ"، فَقَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن عبداللہ یربوعی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے، ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اس کو بھی جنت میں داخل فرما دے۔ ایسے لوگ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ میں پھر عرض کروں گا: اے رب! جنت میں اسے بھی داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہو۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں اس وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
Narrated Anas: I heard the Prophet saying, "On the Day of Resurrection I will intercede and say, "O my Lord! Admit into Paradise (even) those who have faith equal to a mustard seed in their hearts." Such people will enter Paradise, and then I will say, 'O (Allah) admit into Paradise (even) those who have the least amount of faith in their hearts." Anas then said: As if I were just now looking at the fingers of Allah's Apostle.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 600
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا معبد بن هلال العنزي، قال: اجتمعنا ناس من اهل البصرة، فذهبنا إلى انس بن مالك وذهبنا معنا بثابت البناني إليه يساله لنا عن حديث الشفاعة، فإذا هو في قصره، فوافقناه يصلي الضحى، فاستاذنا، فاذن لنا وهو قاعد على فراشه، فقلنا لثابت لا تساله عن شيء اول من حديث الشفاعة، فقال: يا ابا حمزة هؤلاء إخوانك من اهل البصرة جاءوك يسالونك عن حديث الشفاعة، فقال: حدثنا محمد صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم في بعض، فياتون آدم، فيقولون: اشفع لنا إلى ربك، فيقول: لست لها ولكن عليكم بإبراهيم فإنه خليل الرحمن، فياتون إبراهيم، فيقول: لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله، فياتون موسى، فيقول: لست لها ولكن عليكم بعيسى، فإنه روح الله وكلمته فياتون عيسى، فيقول: لست لها ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم، فياتوني، فاقول: انا لها، فاستاذن على ربي فيؤذن لي ويلهمني محامد احمده بها لا تحضرني الآن فاحمده بتلك المحامد واخر له ساجدا، فيقول: يا محمد ارفع راسك، وقل يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي امتي، فيقول: انطلق، فاخرج منها من كان في قلبه مثقال شعيرة من إيمان، فانطلق فافعل، ثم اعود فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال: يا محمد، ارفع راسك، وقل يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي امتي، فيقول: انطلق، فاخرج منها من كان في قلبه مثقال ذرة او خردلة من إيمان، فاخرجه، فانطلق فافعل، ثم اعود فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقول: يا محمد، ارفع راسك، وقل يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي امتي، فيقول: انطلق، فاخرج من كان في قلبه ادنى ادنى ادنى مثقال حبة خردل من إيمان، فاخرجه من النار فانطلق فافعل، فلما خرجنا من عند انس، قلت لبعض اصحابنا: لو مررنا بالحسن وهو متوار في منزل ابي خليفة فحدثناه بما حدثنا انس بن مالك، فاتيناه فسلمنا عليه فاذن لنا، فقلنا له: يا ابا سعيد، جئناك من عند اخيك انس بن مالك، فلم نر مثل ما حدثنا في الشفاعة، فقال: هيه، فحدثناه بالحديث، فانتهى إلى هذا الموضع، فقال: هيه، فقلنا: لم يزد لنا على هذا، فقال: لقد حدثني وهو جميع منذ عشرين سنة، فلا ادري انسي ام كره ان تتكلوا، قلنا: يا ابا سعيد، فحدثنا فضحك، وقال: خلق الإنسان عجولا ما ذكرته إلا وانا اريد ان احدثكم حدثن كما حدثكم به، قال: ثم اعود الرابعة، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال: يا محمد ارفع راسك، وقل يسمع، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، ائذن لي فيمن قال: لا إله إلا الله، فيقول: وعزتي وجلالي وكبريائي وعظمتي، لاخرجن منها من قال: لا إله إلا الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: اجْتَمَعْنَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَذَهَبْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَذَهَبْنَا مَعَنَا بِثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ لَنَا عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَإِذَا هُوَ فِي قَصْرِهِ، فَوَافَقْنَاهُ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَّا، فَأَذِنَ لَنَا وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقُلْنَا لِثَابِتٍ لَا تَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ أَوَّلَ مِنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ هَؤُلَاءِ إِخْوَانُكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَاءُوكَ يَسْأَلُونَكَ عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيم، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِي، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ، قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا: لَوْ مَرَرْنَا بِالْحَسَنِ وَهُوَ مُتَوَارٍ فِي مَنْزِلِ أَبِي خَلِيفَةَ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَأَذِنَ لَنَا، فَقُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَاكَ مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِي الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: هِيهْ، فَحَدَّثْنَاهُ بِالْحَدِيثِ، فَانْتَهَى إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ، فَقَالَ: هِيهْ، فَقُلْنَا: لَمْ يَزِدْ لَنَا عَلَى هَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ حَدَّثَنِي وَهُوَ جَمِيعٌ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً، فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَمْ كَرِهَ أَنْ تَتَّكِلُوا، قُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، فَحَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا مَا ذَكَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدَّثَنِ كَمَا حَدَّثَكُمْ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَقُولُ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي، لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ہلال العنزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ بصرہ کے کچھ لوگ ہمارے پاس جمع ہو گئے۔ پھر ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اپنے ساتھ ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی لے گئے تاکہ وہ ہمارے لیے شفاعت کی حدیث پوچھیں۔ انس رضی اللہ عنہ اپنے محل میں تھے اور جب ہم پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ملاقات کی اجازت چاہی اور ہمیں اجازت مل گئی۔ اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا تھا کہ حدیث شفاعت سے پہلے ان سے اور کچھ نہ پوچھنا۔ چنانچہ انہوں نے کہا: اے ابوحمزہ! یہ آپ کے بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے شفاعت کی حدیث پوچھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کا دن جب آئے گا تو لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ہماری اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ سے شرف ہم کلامی پانے والے ہیں۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، البتہ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لیے ہوں اور پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تعریفوں کے الفاظ مجھے الہام کرے گا جن کے ذریعہ میں اللہ کی حمد بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں۔ چنانچہ جب میں یہ تعریفیں بیان کروں گا اللہ کے حضور میں سجدہ کرنے والا ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو وہ سنا جائے گا، جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، کہا جائے گا کہ جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لو جن کے دل میں ذرہ یا رائی برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔ پھر میں لوٹوں گا اور یہی تعریفیں پھر کروں گا اور اللہ کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا مجھ سے کہا جائے گا۔ اپنا سر اٹھاؤ کہو، آپ کی سنی جائے گی، میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے کم سے کم تر حصہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی جہنم سے نکال لو۔ پھر میں جاؤں گا اور نکالوں گا۔ پھر جب ہم انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں امام حسن بصری کے پاس بھی چلنا چاہئیے، وہ اس وقت ابوخلیفہ کے مکان میں تھے اور ان سے وہ حدیث بیان کرنا چاہئیے جو انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا۔ پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی اور ہم نے ان سے کہا: اے ابوسعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے یہاں سے آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی، اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی، انہوں نے کہا کہ بیان کرو۔ ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا کہ اور بیان کرو، ہم نے کہا کہ اس سے زیادہ انہوں نے نہیں بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ جب صحت مند تھے، بیس سال اب سے پہلے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لیے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا ابوسعید! پھر ہم سے وہ حدیث بیان کیجئے۔ آپ اس پر ہنسے اور فرمایا: انسان بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لیے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کی (اور اس میں یہ لفظ اور بڑھائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا اور وہی تعریفیں کروں گا اور اللہ کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا۔ اللہ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، جو مانگو کے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو کے قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! مجھے ان کے بارے میں بھی اجازت دیجئیے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری عزت، میرے جلال، میری کبریائی، میری بڑائی کی قسم! اس میں سے (میں) انہیں بھی نکالوں گا جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔
Narrated Ma`bad bin Hilal Al-`Anzi: We, i.e., some people from Basra gathered and went to Anas bin Malik, and we went in company with Thabit Al-Bunnani so that he might ask him about the Hadith of Intercession on our behalf. Behold, Anas was in his palace, and our arrival coincided with his Duha prayer. We asked permission to enter and he admitted us while he was sitting on his bed. We said to Thabit, "Do not ask him about anything else first but the Hadith of Intercession." He said, "O Abu Hamza! There are your brethren from Basra coming to ask you about the Hadith of Intercession." Anas then said, "Muhammad talked to us saying, 'On the Day of Resurrection the people will surge with each other like waves, and then they will come to Adam and say, 'Please intercede for us with your Lord.' He will say, 'I am not fit for that but you'd better go to Abraham as he is the Khalil of the Beneficent.' They will go to Abraham and he will say, 'I am not fit for that, but you'd better go to Moses as he is the one to whom Allah spoke directly.' So they will go to Moses and he will say, 'I am not fit for that, but you'd better go to Jesus as he is a soul created by Allah and His Word.' (Be: And it was) they will go to Jesus and he will say, 'I am not fit for that, but you'd better go to Muhammad.' They would come to me and I would say, 'I am for that.' Then I will ask for my Lord's permission, and it will be given, and then He will inspire me to praise Him with such praises as I do not know now. So I will praise Him with those praises and will fall down, prostrate before Him. Then it will be said, 'O Muhammad, raise your head and speak, for you will be listened to; and ask, for your will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will say, 'O Lord, my followers! My followers!' And then it will be said, 'Go and take out of Hell (Fire) all those who have faith in their hearts, equal to the weight of a barley grain.' I will go and do so and return to praise Him with the same praises, and fall down (prostrate) before Him. Then it will be said, 'O Muhammad, raise your head and speak, for you will be listened to, and ask, for you will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will say, 'O Lord, my followers! My followers!' It will be said, 'Go and take out of it all those who have faith in their hearts equal to the weight of a small ant or a mustard seed.' I will go and do so and return to praise Him with the same praises, and fall down in prostration before Him. It will be said, 'O, Muhammad, raise your head and speak, for you will be listened to, and ask, for you will be granted (your request); and intercede, for your intercession will be accepted.' I will say, 'O Lord, my followers!' Then He will say, 'Go and take out (all those) in whose hearts there is faith even to the lightest, lightest mustard seed. (Take them) out of the Fire.' I will go and do so."' When we left Anas, I said to some of my companions, "Let's pass by Al-Hasan who is hiding himself in the house of Abi Khalifa and request him to tell us what Anas bin Malik has told us." So we went to him and we greeted him and he admitted us. We said to him, "O Abu Sa`id! We came to you from your brother Anas Bin Malik and he related to us a Hadith about the intercession the like of which I have never heard." He said, "What is that?" Then we told him of the Hadith and said, "He stopped at this point (of the Hadith)." He said, "What then?" We said, "He did not add anything to that." He said, Anas related the Hadith to me twenty years ago when he was a young fellow. I don't know whether he forgot or if he did not like to let you depend on what he might have said." We said, "O Abu Sa`id ! Let us know that." He smiled and said, "Man was created hasty. I did not mention that, but that I wanted to inform you of it. Anas told me the same as he told you and said that the Prophet added, 'I then return for a fourth time and praise Him similarly and prostrate before Him me the same as he 'O Muhammad, raise your head and speak, for you will be listened to; and ask, for you will be granted (your request): and intercede, for your intercession will be accepted .' I will say, 'O Lord, allow me to intercede for whoever said, 'None has the right to be worshiped except Allah.' Then Allah will say, 'By my Power, and my Majesty, and by My Supremacy, and by My Greatness, I will take out of Hell (Fire) whoever said: 'None has the right to be worshipped except Allah.' ''
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 601
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجمع المؤمنون يوم القيامة، فيقولون: لو استشفعنا إلى ربنا فيريحنا من مكاننا هذا، فياتون آدم، فيقولون: له انت آدم ابو البشر خلقك الله بيده، واسجد لك الملائكة وعلمك اسماء كل شيء، فاشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا، فيقول لهم: لست هناكم، فيذكر لهم خطيئته التي اصاب".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُجْمَعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيُرِيحُنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: لَهُ أَنْتَ آدَمُ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ الْمَلَائِكَةَ وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایمان والے قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ کاش کوئی ہماری شفاعت کرتا تاکہ ہم اپنی اس حالت سے نجات پاتے، چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ آدم ہیں انسانوں کے پردادا۔ اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا اور ہر چیز کے نام آپ کو سکھائے پس آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں، آپ جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں اور آپ اپنی غلطی انہیں یاد دلائیں گے جو آپ سے سرزد ہوئی تھی۔“
Narrated Anas: Allah's Apostle said, "The believers will be assembled on the Day of Resurrection and they will say, 'Let us look for someone to intercede for us with our Lord so that He may relieve us from this place of ours.' So they will go to Adam and say, 'You are Adam, the father of mankind, and Allah created you with His Own Hands and ordered the Angels to prostrate before you, and He taught you the names of all things; so please intercede for us with our Lord so that He may relieve us.' Adam will say, to them, 'I am not fit for that,' and then he will mention to them his mistake which he has committed.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 607